عمر کے ساتھ انسان کے بال تو سفید ہوتے ہی ہیں مگر انسان بہت کچھ دیکھ بھی چکا ہوتا ہے، سیکھ بھی چکا ہوتا ہے۔ بالوں میں چاندی دنیا کی بھٹی میں جھلسنے کے بعد ہی آتی ہے،مقدور بھر اس جسمانی اور ذہنی ارتقاسےسب ہی گزرتے ہیں۔ کچھ نکھر جاتے ہیں، تراشے جاتے ہیں مگر زیادہ تر جھلس جاتے ہیں۔ ارتقا اسی جدوجہد کا نام ہے، جس میں زندگیاں گزرجاتی ہیں۔ لوگ وسائل کی تلاش میں مسائل میں گھر جاتے ہیں۔ستم یہ ہے کہ وسائل قدرتی ہوں یا دنیاوی، کم ہو رہے ہیں بلکہ ہم خود ہی کم کر رہے ہیں۔ قدرتی وسائل کے کم ہونے سے مراد دنیا بھر میں زیر زمین پانی کی سطح کا نیچے جانا، پاکستان میں سوئی کے مقام پر اب کتنی گیس باقی ہے ؟ گیس کا نام سوئی تو پڑگیا مگر سوئی کے ذخائر ہم نے ایگزاسٹ کرنے میں کون سی کمی چھوڑی ہے۔ اپنی ماچس کی تیلی بچاتے بچاتے ہم سوئی کے مقام سے گیس کو چھوئی موئی کربیٹھے۔ہم وہ لوگ ہیں جو آدھ پائو دہی کی خاطر دودھ کی پوری نہر کو ’’جاگ ‘‘ لگا دیتے ہیں۔ بہر حال مسائل کا انبار ہے جو محدود وسائل میں رہتے ہوئے حل کرنے ہیں۔ ان سب مسائل میں سب سے بنیادی چیز خوراک ہے۔ بے شک اس کا ذمہ خدا نے لیا ہے مگر وہ ہر شخص کیلئے کوئی نہ کوئی سبب یا وسیلہ ضرور بنارہا ہے۔ حکومت بھی اور دیگر فلاحی تنظیموں نے انسانیت کی بنا پر لنگرخانے بنا رکھے ہیں۔ جیسے لاہور میں داتا صاحب کا لنگر بہت مشہور ہے، بزرگان دین کا طریق یہی رہا ہے کہ ان کے دربار سے کوئی بھوکا نہ جائے۔ اولیائے کرام سے جڑی ان سہولیات کی عکاسی اب ہمارا معاشرہ کررہا ہے۔ لوگوں میں شعور بڑھتا جارہا ہے، عمران خان نے ملکی سطح پر اور عثمان بزدار نے صوبائی سطح پر لنگرخانوں کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ پناہ گاہیں تو ہیں ہی مگر کوئی بھوکا نہ سوئے، اس حوالے سے متعدد اقدامات سرکاری اور نجی سطح پر کئے گئے ہیں جو خوش آئند ہیں۔
پنج رکن اسلام دے تے چھیواں فریدا ٹک
(اے فرید ! پانچ رکن اسلام کے ہیں اور چھٹارکن روٹی ہے)۔روٹی کے بعدسب سے اہم بات معیاری علاج ہے۔عثمان بزدار کی حکومت کی مزدور کارڈ اسکیم،صحت انصاف کارڈ اور پھر اس کی یونیورسل ہیلتھ کوریج پروگرام میں منتقلی نہایت ہی عمدہ کاوش لگتی ہے۔ یہ محض انشورنس نہیں ہے۔ اس کو سمجھنے کیلئے آپ کو کسی اسپتال کا چکر لگانے کی ضرورت ہے، مالک کسی پرایسا وقت نہ لائے ، وہی بہتر جانتے ہیں جن کا اسپتالوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ صحت تو بلاشبہ خدا کے ہاتھ میں ہے مگر کم از کم مریض یا اس کے گھر والے علاج کی فیس اور اسپتال کے بلوں سے تو مطمئن ہوں کہ کوئی ہے جو مالی مسائل دیکھ لے گا، حکومت اس کا خرچ اٹھا لے گی۔امیر اسپتال جا کر کہتا ہے ’’آپ پیسوں کی فکر نہ کریں بس میرے مریض کو کچھ نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ یہی اطمینان اوراعتمادغریب کو بھی دینے والا کوئی ہو۔ پنجاب حکومت کا یونیورسل ہیلتھ کوریج پروگرام ایسا اقدام ہے مجھے بھی اس کا اندازہ تب ہوا جب میرا حال ہی میں لاہور کے ایک مشہور اور مہنگے اسپتال کا چکر لگا۔ یہاں ایک کائونٹر پر صحت کارڈ کائونٹر لکھا دیکھا تو سمجھ آئی کہ شیشوں سے لیس اس عمارت میں اب غریب کا بھی علاج ممکن ہے۔ سردار صاحب ساہیوال اور ڈی جی خان ڈویژنز کے عوام کو یونیورسل ہیلتھ کوریج کی یہ سہولت مہیا کرچکے ہیں اور دسمبر تک پنجاب کے 11 کروڑ عوام کو مفت علاج کی سہولیات میسر ہونگی۔ اس پروگرام کے تحت ہر خاندان کو 7 لاکھ 20 ہزار روپے تک کی کوریج مل سکے گی۔ انسانیت کا تقاضایہ ہے کہ ایسے پروگرام چلتے رہنے چاہئیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر عثمان بزدارکو دوبارہ بھی پنجاب چلانے کا موقع ملا تو وہ اس حد کو اور بھی ضرور بڑھائیں گے۔حکمرانوں کو چاہئے کہ ایسے فلاحی منصوبوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور عوامی بھلائی کے معاملات کو سیاست سے پاک رکھیں۔
اس کے علاوہ عثمان بزدارنے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے جو سہولیات کا انتظام کر رکھا ہے وہ بھی قابل ستائش ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ فارن کرنسی کما رہے ہیں اور ان کے کوئی مسائل نہیں۔ اس کے برعکس یہ اوور سیز پاکستانی جس جہدِ مسلسل کا حصہ ہیں وہ یہی جانتے ہیں۔ نہ باہر کے ملکوں میں پیسے کمانا آسان ہے اور نہ ہی بیرون ملک مقیم پاکستانی مزے لوٹ رہا ہے۔ ان بیچاروں کو تو سننے والا ہی کوئی نہ تھا۔ لوگوں کی زمینوں پر، گھروں پر قبضے ہوتے رہے۔ٹکٹ خرچ کرکے یہ لوگ پاکستان آتے تو سرکاری دفاتر کے چکر لگاتے، کچھ دن لوگوں کے پیچھے بھاگنے کے بعد مسئلہ حل ہوئے بغیر واپس چلے جاتے، اسی طرح نظام چلتا رہتا اور مظلوم پستا رہتا۔ بزدار صاحب نے ان کے مسائل کے حل کیلئے جامع حکمت عملی بنائی اور اس پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا۔ آج ہی انہوں نے اوورسیز پاکستانی کمیشن کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے 24/7ہیلپ لائن اور ایپ کا افتتاح کیا اور اسی دفتر میں قائم مرکز مال کا بھی افتتاح کیا۔ مرکز مال سے یاد آیا، عثمان بزدارنے پنجاب میں دیہی مراکز مال کی تعداد بڑھا کر 1052 کردی ہے اور رواں مالی سال میں ان مراکز کی تعداد بڑھا کر 8 ہزار کردی جائے گی۔
خیر او پی سی کے دورے کے موقع پر انہوں نے یہاں قائم نادرا سینٹر کا بھی وزٹ کیا۔ وزیر اعلیٰ کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس بیرون ملک کئی مقیم پاکستانیوں کی زمینیں واگزار کروا چکی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی کاوش ہے، اس سلسلے کو بھی چلتے رہنا چاہئے۔ اس کے علاوہ عثمان بزدار نے لاہور کی ماس ٹرانسٹ کو جدید بسیں مہیا کی ہیں۔ کل 64 بسیں مہیا کی گئی ہیں، ہر بس 18 میٹر لمبی ہے جس کے باعث اب لاہور میں سوا لاکھ مسافروں کو روزانہ کی بنیاد پر آرام دہ سفری سہولیات مل سکیں گی۔عثمان بزدار نے اس منصوبے کے ذریعے سرکاری خزانے کیلئے 2 ارب روپے کی بچت ممکن بنائی۔ جدید سفری سہولیات کو چھوٹے اور پسماندہ اضلاع میں بھی مہیا کرنے کی حکمت عملی تشکیل دی۔ گزشتہ حکومت کے کسی منصوبے کو بند نہیں کیا گیا بلکہ بہتر بنایا گیاہے،تاکہ کوئی بھی منصوبہ چاہے وہ نمائشی ہو یا فلاحی، اس کو عوام کیلئے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند بنایا جاسکے۔ سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے، جو عثمان بزداراپنے طریقہ کار سے مسلسل سمجھا رہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)