ایک سعودی اُستاد آل حمادہ نے اپنے گھر کی دیوار پر کتابوں کے تبادلے کے لیے ایک بک شیلف قائم کی ہے ، مقامی شہری اس بک شیلف سے کتابیں لے کر بھی جاتے ہیں اور نئی کتابیں لاکر اس شیلف میں رکھتے بھی ہیں۔’’آل حمادہ‘‘ کو یہ خیال کیوں آیا؟ اس بارے میں ایک اخبار کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ میں سوچتا تھا کہ کس طرح میں مطالعے کو اپنےہم وطنوں کی عادت بناؤں،کیوں کہ مطالعہ ہی شعور اور آگہی فراہم کرتا ہے۔
میرا نصب العین صرف اتنا ہے کہ میں اپنی اس دنیا میں مطالعے کی ایک شمع روشن کرجاؤں، یہی سوچ تھی جس کے بنا پرچار سال قبل اپنے گھر کی دیوارپر بک شیلف قائم کرنے کا خیال آیا تھا، مگر کئی رکاوٹیں ایسی آئیں کہ اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ لیکن پھرسعودی عرب کے 90 ویں قومی دن کے موقع پر اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں کسی بھی کام کے لیے عزم و ہمت ناگزیر ہوتے ہیں اور بلندی کا سفر مطالعے کے بغیر ممکن نہیں۔ پہلے دن نوے کتابیں بک شیلف میں رکھی تھیں اب بڑھ کر 270 سے زیادہ ہوچکی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ لوگ اس بک شیلف سے کتابیں مطالعے کے لیے لے بھی جارہے ہیں اور رکھ بھی رہے ہیں۔
بک شیلف قائم کرنے کا ایک فائدہ اُن لوگوں کو بھی ہوا جو کتابیں خریدنے اورپڑھنے کے شوقین ہیں، مگران کے گھروں میں انہیں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ وہ اپنی کتابیں اس بک شیلف میں لاکر رکھ دیتے ہیں ہیں ،جبکہ کئی لوگ ایسے ہیں جو مطالعہ کرنا چاہتے ہیں مگر کتاب خریدنے کی اتدعا میں نہیں رکھتے تو وہ یہاں سے کتابیں لے جا کر اپنے مطالعے کی تسکین کر لیتے ہیں۔