’’ہمارا زمانہ اچھا تھا‘‘ بزرگ نسل کا گویا تکیہ کلام ہی بن چکا ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا یا نجی محفلوں میں زمانے کے بدلتے رنگ اکثر موضوعِ گفتگو رہتے ہیں کہ کیسے وقت اور اندازِ زندگی بدلتے جا رہے ہیں۔ تبدیلی انسانی زندگی کا مثبت پہلو بھی ہے اور یہ اپنے ساتھ کئی نئی مشکلات بھی لاتی ہے۔ بدلتے سماجی رویے اپنی جگہ ایک بحث طلب موضوع ہے مگر بدلتا طرزِ معاشرت بہت سی رومانوی علامات کو ترقی کی قربان گاہ کی نذر کر دیتا ہے۔ ایسی ہی ایک گزرے زمانے کی نشانی گھڑا ہے۔ گھڑے کو خصوصاً دیہاتی زندگی میں ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ میرا آبائی گاؤں ایک بارانی علاقہ ہے جہاں پانی اب بھی جنسِ گراں مایہ ہے۔ کنوؤں کی کھدائی اور اس کے نتیجے میں دریافت ہونے والا زیرِ زمین پانی ایک بڑی نعمت ہے اور’’پانی نکل آنا‘‘ سماجی خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ پانی کے لئے کھدائی کسی حد تک قدیم طرز کے علاوہ اب جدید مشینوں سے بھی کی جاتی ہے۔ بہر حال پانی کے نکل آنے پر احباب کی دعوت کی جاتی ہے اور مساکین کو اس خوشی میں شریک کیا جاتا ہے۔ جدید تکنیک کے باعث بہت گہرے پانی تک بھی رسائی ممکن ہو گئی ہے اور حکومت کی جاری کردہ واٹر سپلائی اسکیمیں بھی خاصی مددگار ثابت ہوئی ہیں ورنہ تو پورے گاؤں میں میٹھے پانی کے چند ہیکنو ئیںتھے اور خواتین وہاں سے گھر کے استعمال کے لئے پانی مٹی کے گھڑوں میں بھر لایا کرتی تھیں۔ یہ پانی بھر لانے کی روایت گو ایک اچھی بھلی جسمانی مشقت کی حامل تھی کہ کنواں گھر سے دور ہونے کی صورت میںطویل مسافت طے کرنا پڑتی تھی اور واپسی تو ظاہر ہے کہ بھرے ہوئے گھڑوں کے ساتھ ہوتی تھی جو خاصے وزنی ہوتے تھے اور ایک پھیرے میں زیادہ پانی بھر لانے کی کوشش میں کم ازکم دو گھڑے سر پر اور ایک بغل میں دبائے گھر والوں کی پیاس بجھانے کا یہ سفر گھر کی خواتین اپنے پیاروں کی محبت میں صدیوں سے طے کرتی آئی ہیں۔ اس سفرِ ایثار میں گھڑا ان جفاکش خواتین کا محرمِ راز اور مددگار ہوا کرتا تھا۔ گاؤں کے کمہار سالانہ بنیادوں پر برتن تیار کرتے تھے اور ہر گھر کی ضرورت کے مطابق اتنی ہی تعداد میں گھڑے پہنچا دیے جاتے تھے۔ کورے گھڑے کے پانی کا اپنا ہی لطف تھا جس کا مقابلہ فریج کا پانی کیا ہی کر سکتا ہے۔ میٹھے پانی کے کنوئیں سے پانی بھرنے کے وقت خواتین کا ایک چھوٹا سا سماجی اجتماع ہوتا تھا جیسے جدید دور کی خواتین ’’مڈ ڈے برنچ یا کافی پارٹی‘‘ کا اہتمام کرتی ہیں۔ پنگھٹ پر سہیلیوں سے وقت طے کر کہ پانی بھرنے پہنچنا، پھر وہاں ایک سخت جسمانی مشقت کے ساتھ کنوئیں سے چمڑے کا پانی بھرا “بوکا” نکالتے ہوئے خوب گپ شپ۔ سسرال کے شکوے، میکے کی یادیں، ہجر کی کسک، وصل کاتذکرہ،بہن بھائی کی جدائی کا غم، ڈھولے ماہی کی چٹھی، کچھ قہقہے، کچھ درد، سب مل بانٹنے کا ایک اچھا بہانہ تھا یہ پانی بھرنے کی مشقت۔ سر پر گھڑے رکھوانے کے لئے بھی تو ایک سکھی سہیلی کی ضرورت ہوتی تھی۔ کسی پرانے دوپٹے کو گول سا لپیٹ کر سر پر رکھنے کے لئے ایک سہارا سا بنایا جاتا تھا جسے ہماری کوہستانی زبان میں ’’اونو‘‘ کہتے تھے۔ پھر کوئی درد مند سہیلی گھڑے کو سر پر جما کر رکھوا دیتی تھی اور پھر اس پر دوسرا گھڑا۔ اور ایک بظاہر خفیف سی ادا سے تیسرا گھڑا بغل میں رکھ لینا۔ یہ جو ہم فیشن ماڈلز کی ’’کیٹ واک‘‘پر انگشت بدنداں ہوا کرتے ہیں، کبھی اپنے دیہات کی ان بیبیوں کی وہ چال دیکھیں کہ ان تین گھڑوں کا توازن برقرار رکھے پتھریلے اور اونچے نیچے راستوں پر کیسے قدم جما جما کر چلا جاتا ہے نسوانی وقار کے ساتھ۔ شاید یہ اپنے پیاروں کی محبت ہے جو دشوار راستے آسان کر دیا کرتی ہے۔اختر شیرانی جب دیس کی یادیں اپنی نظم میں پروتے ہیں تو انہیں بھی پنگھٹ کا یہنقشہ یاد آتا ہے،او دیس سے آنے والے بتاکیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پرپِنہاریاں پانی بھرتی ہیں،انگڑائی کا نقشہ بن بن کرسب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیںاور اپنے گھر کو جاتے ہوئےہنستی ہوئی چہلیں کرتی ہیںاو دیس سے آنے والے بتا،اس بار اپنے گاؤں جانا ہوا تو جا بجا پلاسٹک کا راج نظر آیا۔ وادی کے قدرتی حسن کو پلاسٹک شاپروں کا انبار گہن لگا رہا ہے۔ کہیں درختوں پر اٹکے ہوئے تو کہیں کھیتوں میں بکھرے ہوئے اور پلاسٹک کے کین اٹھائے خواتین پانی بھرتے ہوئے۔ گویا گھڑا تقریباً متروک ہوا۔ میں خوب سمجھتی ہوں کہ ترقی کے تمام مظاہر پر سب کابرابر حق ہے۔پلاسٹک کا کین گھڑے جیسا وزنی بھی نہیں اور ایک ہاتھ سے اٹھایا جا سکتا ہے۔ وہ پنگھٹ اور پانی بھرنے کی تمام رومانویت اپنی جگہ مگر اس میں بہت دشواری بھی تھی اور اب بھی ہے۔ ہم شہری علاقوں میں نلکا کھول بے دھڑک پانی استعمال کرنے والے اس کنوئیں سے پانی بھر لانے والی جدوجہد کو کیا جانیں سوائے شاعرانہ حوالوں کے۔ دعا ہے کہ دیہات کی زندگی خصوصاً وہاں کی جفا کش خواتین کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں۔ بارانی علاقوں میں بھی چھوٹے ڈیم وغیرہ بنا کر پانی تک رسائی آسان بنائی جائے۔ نلکوں سے پانی کے حصول میں بے پناہ سہولت تو ہو گی لیکن گھڑے ہماری زندگی سے عنقا ہو جائیں گے۔ پہلے ہی گاؤں کے کمہار شکوہ کرتے ہیں کہ’’آوی‘‘ بند ہی ہوئی جاتی ہے کہ مٹی کے برتن اب کون برتتا ہے۔ مٹی کی بٹھلیاں (گول پیالے)، کوزے، سر پوش( دیہاتی ہاٹ پاٹ)، کنیاں کٹویاں ( گو شہری ہوٹلوں میں کنا اور کٹوی گوشت کی مقبولیت نے اس لفظ سے نئی نسل کو روشناس کر ا رکھا ہے)، اور گھڑے اب خال خال ہی نظر آئیں گے۔ وہ جو گھڑے کی گردن میں موتیے کا گجرا پہنا دیا جاتا تھا وہ روایت بھی کسی کمہار کی آوی میں دفن ہوئی۔ گھڑونجی یعنی گھڑے رکھنے کو بنایا گیا لکڑی کا تختہ جو دیہاتی صحن کے لئے لازم وملزوم تھا اب اس کی جگہ فریج لے لیں گے۔ اچھا ہے۔ جدید سہولتیں ہوں، آسانیاں ہوں مگر وہ گھڑے، ہائے کہ جن سے کمہار کی محنت، اپنے گاؤں کی مٹی اور ممتا کی خوشبو آتی تھی، وہ رخصت ہوئے۔ ویسے بھی اب کون کسی کی محبت میں چناب پار کیا کرتاہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)