• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی دس سال پہلے کا ذکر ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں قانون کی ڈگری مکمل ہونے کا وقت قریب آیا تو فکر لاحق ہوئی کہ اب کیا بنے گا۔ ویسے تو مجھے وکالت کا جنون کی حد تک شوق تھا (اور ہے) اور میں نے اپنے لئے کبھی کسی اور شعبے کا سوچا بھی نہیں تھا ، لاہور کچہری کا خوف مگر حاوی ہو گیا۔ کئی ایک بڑے وکلاء کے دفتروں کے چکر لگائے تاکہ ان کی شاگردی میں شامل ہو کر ایک بڑا وکیل بنا جائے لیکن تعلق واسطے کے بغیر کہیں دال گلتی نظر نہیں آئی اور ایک چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھنے والے کلرک کے بیٹے کا لاہور کے بڑے وکیلوں کے ساتھ تعلق ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ کافی پریشانی کی حالت میں فیصلہ کیا کیوں نہ اسی ”سفارش“ پر بھروسہ کیا جائے جس نے کبھی مایوس نہیں کیا اور جس کے استعمال میں مجھے کافی مہارت حاصل ہو چکی تھی یعنی پڑھائی اور محنت کی ”سفارش“۔ اس روز میں نے سی ایس ایس کا امتحان دینے کا فیصلہ کیا۔ اپنی سرکاری اسکول کی تعلیم میں ہمیشہ لائق طلباء میں شمار ہوتا تھا اور اسکول کی تعلیم ہی کے دوران مقابلہ کرنے اور کامیابیاں حاصل کرنے کی وجہ سے ایک خود اعتمادی تھی جو اسکول کے بعد سے ہمیشہ میری ہم سفر رہی لیکن سی ایس ایس کا امتحان کوئی اور ہی طرح کی پڑھائی تھی۔ انگریزی اخبار پڑھنے کی کوشش کروں تو سر میں درد شروع ہو جائے، انگریزی محاورے یاد کرنا شروع کئے تو لگا کہ یہ کبھی یاد نہیں ہونگے۔ حالات حاضرہ اور جنرل نالج کی کتابیں دیکھ کر ہول اُٹھتے تھے۔ جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس لئے اس پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے پی سی ایس کرنا چاہئے۔ لیکن پی سی ایس کا امتحان ان چند سالوں میں معطل رہا، نتیجتاًپنجاب پبلک سروس کمیشن جس نوکری کا اشتہار دیتا، میں اس کے لئے درخواست دے دیتا۔ اوپر نیچے کئی نوکریوں کے تحریری امتحانوں میں ناکامی ہوئی لیکن اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل کی اسامی میں پنجاب بھر میں اول پوزیشن آ گئی۔ اچانک کال آ گئی اور یوں یونیورسٹی سے بیگ اٹھا کر ایک دن میں سینٹرل جیل ملتان وارد ہو گیا۔
جیل میں قریب پانچ چھ مہینے گزارنے کا موقع ملا۔جیل کے معمولات کو بڑے قریب سے دیکھا۔ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نوید اشرف نے ان الفاظ میں استقبال کیا” ایشیاء کی سب سے خطرناک جیل میں خوش آمدید“۔ ”خطرناک کیوں“ ، میں نے تھوک نگلتے ہوئے استفسار کیا ”کیونکہ یہاں فرقہ وارانہ جنگجو تنظیم کی ساری قیادت بند ہے“انہوں نے جواب دیا۔ اس زمانے میں پاکستان میں طالبان کا تو کوئی وجود نہیں تھا اور وہی تنظیم دہشت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔کئی روز تک تو جیل کے اندر جانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی اور باہر دفتر میں ہی بیٹھ کر چلا جاتا۔ لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، ایک دن جیل کے اندر جانا ہی پڑا اور پھر کئی مہینے وہیں گزرے۔ میں سی ایس ایس کے خواب دل میں سجائے جون کے مہینے اور ملتان کی گرمی میں جیل کا افسر بنا دیا گیا تھا۔ بڑا مشکل وقت تھا۔ اتنی قلیل تنخواہ ، نہ کوئی رہنے کی جگہ اور نہ کوئی کھانے کا بندوبست۔ دیگر افسروں کو دیکھتا تو سمجھ نہیں آتی کہ ہر کوئی متمول اور خوش باش نظر آتا۔ ایک اردلی ملا لیکن کچھ دیر بعد تنگدستی کی شکایت کر کے وہ بھی بھاگ گیا۔ بھاگنا ہی تھا ، نہ کوئی میری ”خدمت“ کرتا اور نہ ہی میرا ”خدمتیں“ کرانے کا کوئی ارادہ تھا کیونکہ میں تو خود کو وہاں مہمان سمجھ رہا تھا اور میرا دھیان اپنی پڑھائی پر تھا۔قصہ مختصر، میں نے سوچا کہ رات کی ڈیوٹی لگوا لیتا ہوں، ساری رات دفتر میں بیٹھ کر پڑھا کروں گا اور صبح کسی کونے میں پڑا سوتا رہوں گا۔ رات کی ڈیوٹی آسانی سے لگ گئی کیونکہ کوئی بھی اور افسر خوشی سے رات کی ڈیوٹی کرنے کو تیار نہ تھا۔
ماضی کی یادیں بھی عجیب ہوتی ہیں ، جب کبھی ان کے دریچے کھلتے ہیں ، مسکراہٹیں بکھیر جاتے ہیں۔ خواہ وہ ماضی خود کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو لیکن اس کی یادوں میں ایک عجیب سا ناسٹیلجیاکا عنصر ہوتا ہے۔ یہی حال میری جیل کی یادوں کا ہے۔آج اخبار دیکھتے ہی اچانک یادوں کی بارات کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ڈی آئی خان میں جیل پر حملے میں طالبان 243قیدی چھڑا کر لے گئے اورچھ اہلکاروں سمیت بارہ افراد ہلاک ہوئے۔مجھے اس واقعے پر قطعاً حیرت نہیں ہوئی بلکہ مجھے حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ اس طرح کے واقعات اتنے تواتر سے کیوں نہیں ہوتے۔ بنوں جیل کے واقعے کے بعد یہ دوسرا واقعہ تھا جس میں طالبان انتہائی مطلوب ملزمان جیل سے فرار کروا کر لے گئے تھے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے کتنی عجیب و غریب قسم کی حیرت ہو رہی ہے لیکن میری اس حیرت کی وجہ دس سال پہلے ہائی سیکورٹی سینٹرل جیل ملتان میں حاصل کیا ہوا ذاتی تجربہ ہے۔ جیل سر تا پا کرپشن میں ڈوبی ہوئی تھی۔ صرف ایک ڈپٹی نوید اشرف تھے جن کے بارے میں مجھے خوش گمانی ہے ورنہ تو ہر کوئی اس دوڑ میں شامل تھا۔جب کرپشن آ جاتی ہے اور وہ بھی حد سے زیادہ تو پھر سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ کرپشن کے ساتھ سفارش بھی آ جاتی ہے۔ چند ایک جگہیں پیسہ بنانے والی ہوتی ہیں ہرکوئی ان پر لگنا چاہتا ہے جبکہ باقی مجبوری کا نام شکریہ والی ہوتی ہیں۔ ایسی جگہوں پر جو عملہ کام کرتا ہے اس میں مورال نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، نہ ہی اس میں کوئی جذبہ ہوتا ہے۔ وہ تو ہر وقت دوسرے ساتھیوں کی جلن میں جلتا رہتا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر اتنی”دہاڑی“ لگا رہے ہوتے ہیں۔ نوید اشرف کی بہترین کاوشوں کے باوجود جیل بدانتظامی اور نااہلی کی ایک بدترین مثال پیش کر رہی تھی۔اکثر اوقات ڈپٹی صاحب جیل میں تازہ تازہ لگائے گئے کیمروں کو ہلانے والوں کی تلاش میں لگے رہتے لیکن انہیں کوئی خاص کامیابی نہ ہوتی۔ میری ڈیوٹی رات کو مغرب کے بعد شروع ہوتی اور صبح فجر تک جاری رہتی ۔ بحیثیت ڈیوٹی افسر رات کے وقت وہ ہائی سیکورٹی جیل میرے کنٹرول میں رہتی اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے یا حادثے کی ذمہ داری بھی میرے کندھوں پر تھی۔ ضابطے کے مطابق ڈیوٹی افسر کو رات کو تین دفعہ ساری جیل کا راؤنڈ کرنا ہوتا تھا۔ میں نئی نئی فرض شناسی کا شوقین تھا اور رات کو تین راؤنڈ کرنا میرا معمول بن گیا۔ بہت جلد محسوس ہوا کہ ماتحت عملے میں بے چینی پیدا ہو گئی تھی، وجہ تسمیہ اس کی یہ تھی کہ ڈیوٹی افسر تین راؤنڈ کیوں کرتا ہے۔ مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ جیل میں اس طرح کی کوئی روایت نہیں ہے۔ عام طور پر ڈیوٹی افسر رات کو سونے سے پہلے جیل کے دفتر کا چکر لگا کر سارے رجسٹروں پر اپنے راؤنڈ کے فرضی دستخط کر دیتے ہیں۔
رات کے وقت جیل کا سیکورٹی ماحول دیکھ کر میں پریشان ہو گیا۔ سینٹرل جیل کی بیسیوں بیرکوں، فیکٹری، کچن، جہاں دس بیس قیدی ساری رات روٹیاں پکاتے تھے، انتہائی خطرناک قیدیوں کے سیل، اسپتال، ڈیتھ سیل غرض ہر جگہ ڈیوٹی پر تعینات عملہ جسے انتہائی چاک و چوبند ہونا چاہئے یا تو سو رہا ہوتا یا پھر اپنی بیرک چھوڑ کے کسی دوسری بیرک میں گپیں لگا رہا ہوتا۔ بیرونی دیوار اور راستوں میں جن سپاہیوں کی دو چار سو میٹر کے فاصلے پر ڈیوٹی ہوتی یا تو باجماعت سو رہے ہوتے یا پھر دائرہ بنا کر گپیں ہانک رہے ہوتے۔ بیرونی دیوار پر پہرہ دینے کیلئے انگریز کا بنایا ہوا ایک ٹوکن کا نظام تھا جس کے مطابق ہر پندرہ بیس منٹ کے بعد بیرونی دیوار پر تعینات پہلا سپاہی ایک نمبر شدہ ٹوکن وصول کر کے اگلے سپاہی کو دے کر آئے گا اور آ کر نیا نمبر شدہ ٹوکن لے گا۔ پہلا ٹوکن ہر سپاہی کے ہاتھ سے گزر کر ایک ڈیڑھ گھنٹے میں صدر دروازے تک واپس پہنچنا ہوتا تھا، اسی طرح ہر پندرہ بیس منٹ کے بعد صدر دروازے سے نیا ٹوکن چلتا تاکہ سپاہی ان ٹوکنوں کو وصول کرنے اور اگلے سپاہی کو دینے کیلئے ساری رات بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ چکر لگاتے رہیں۔ اس کا توڑ عملے نے یہ کیا کہ ٹوکنوں پر سے نمبر مٹا کر سارے ٹوکن آپس میں بانٹ لئے تاکہ جب بھی میں کسی سپاہی سے ٹوکن مانگوں ، وہ مجھے دکھا دے لیکن پہرہ دینے کیلئے اسے ایک قدم بھی نہ ہلانا پڑے۔اسی طرح جیل کی دیوار کے ساتھ برجیاں بنی ہوئی تھیں جن پر اسلحہ بردار سپاہی ہوتے تھے۔ بعض اوقات تو میں ان برجیوں کے نیچے کھڑے ہو کر سپاہیوں کو آوازیں دے کر اور سیٹیاں بجا کر جگایا کرتا۔غرض جتنی دیر میری رات کی ڈیوٹی رہی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ ایک دن میں نے جھلاہٹ میں اپنے اردلی کو سارا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ ہائی سیکورٹی جیل کس طرح چل رہی ہے ۔ وہ اردلی ہنس پڑا اور کہنے لگا۔” سر جی آپ کا خیال ہے کہ جیل کا عملہ اس جیل کو چلا رہے ہیں ، ایسی کوئی بات نہیں ، اس جیل کو تو اللہ چلا رہا ہے“۔
تازہ ترین