پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف کی سطح پر 5 ارب 30 کروڑ ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج پر معاہدہ ہوگیا ہے۔ اس پروگرام کو ستمبر کے شروع میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے منظوری کے لئے پیش کئے جانے سے قبل پاکستان کو کچھ اہم ترجیحی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ان میں سے دو ضروری اقدامات کا تعلق اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے ہے جن میں لچکدار شرح زرمبادلہ کی منصوبہ بندی اور مانیٹری پالیسی کو سخت کرنا شامل ہے جو کہ سالانہ شرح سود میں 100 سے 150بیس پوائنٹس اضافہ کرکے کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اگست میں مانیٹری پالیسی سخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس نے پہلے سے ہی شرح زرمبادلہ کے حوالے سے اہم اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔ اسٹیٹ بینک خود کو بیرونی ذرمبارلہ کی مارکیٹ میں مداخلت سے دستبردار کرچکا ہے۔
ترقی کرتی ہوئی دیگر مارکیٹس (مثال کے طور پر بھارت) کی طرح اسٹیٹ بینک آف پاکستان زرمبادلہ کی مارکیٹ میں داخل ہورہا ہے تاکہ زرمبادلہ میں طلب ورسد کے درمیان توازن پیدا کیا جاسکے اور شرح مبادلہ میں استحکام پیدا کیا جاسکے۔ زرمبادلہ میں معقول آمد زر کی عدم موجودگی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کو پورا کرنے کی وجہ سے اسٹیٹ بینک گزشتہ 2سال کے عرصے میں 10 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کے لئے اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں سے بھی رقم نکلوائی جو کہ 2 ارب 35 کروڑ ڈالر ہے۔ ایک طرف تو جولائی 2011 ء میں بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب 77 کروڑ 60 لاکھ سے کم ہوکر 19 جولائی 2013 تک 5 ارب 15کروڑ 30 لاکھ رہ گئے تو دوسری طرف آئی ایم ایف کو بھاری قرض کی واپسی اور دیگر بیرونی قرضوں اور رواں مالی سال 2012-13 ء میں موجودہ خسارے میں 2 ارب 30 کروڑ کے اضافے نے حکومت کوقرض کی ادائیگیوں کے لئے آئی ایم ایف سے امداد لینے پر مجبور کیا۔ اگر پاکستان یہ پروگرام نہیں لیتا یا اس میں کوئی تاخیر ہوتی ہے تو رواں برس کے اختتام پر پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں نادہند ہوسکتا ہے اور اس کے سنگین معاشی نقصانات سامنے آئیں گے۔ اسی تناظر میں مختصر سے وسط مدتی معاشی استحکام کیلئے فوری اقدامات کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے خود کو زرمبادلہ کی مارکیٹ سے دستبردار کرنے کا فیصلہ دو وجوہات کی بناء پر کیا تھا۔ پہلا یہ کہ اسے فوری اقدامات کا نفاذ کرنا تھے اور دوسرا یہ کہ زرمبادلہ کی مارکیٹ میں داخلے کی استطاعت نہیں رہی کیوں کہ اس کے بیرونی زرمبادلہ میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی۔ نتیجتاً پاکستان کے زرمبادلہ کی شرح کی قیمت گر کر یکم جون کو روپے کے مقابلے میں فی ڈالر 98.5روپے سے بڑھ کر 26 جولائی کو 101.4 روپے کا ہوگیا۔ چند وجوہات کی بناء پر اوپن مارکیٹ میں زرمبادلہ کی شرح میں بری طرح نقصان پہنچا۔ سب سے پہلے تو جیسے ہی اسٹیٹ بینک کی جانب سے زرمبادلہ کی مارکیٹ سے دستبردار ہونے کی خبر پھیلی ہمیشہ کی طرح کچھ موقع پرست عناصر نے زرمبادلہ کی ذخیرہ اندوزی کر کے مارکیٹ پر قابوکرلیا۔ دوسرا یہ کہ وزیرخزانہ کا یہ بیان کہ حکومت آئی ایم ایف سے براہ راست بھاری قرض لے رہی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ حکومت ذخائر کو بڑھانے کے لئے بے تاب ہے۔تیسرا یہ کہ حکومت کی جانب سے بغیر سوچے سمجھے ٹیکس حکام کو انفرادی بینک اکاوئنٹس تک براہ راست رسائی دینے کے فیصلے نے لوگوں میں خوف پیدا کردیا اور اسکی وجہ سے ملک میں ڈالر کی مانگ بڑھ گئی اور لوگوں نے بینکوں میں اپنے اکاوئنٹس سے پیسے نکال کر ڈالر خریدنا شروع کردیا۔ اس اقدام کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ چوتھا یہ کہ کرنسی کی خریدوفروخت کرنے والوں نے مزید منافع کے لئے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔ پانچواں یہ کہ اسٹیٹ بینک نے مخصوص اقدامات کئے جیسا کہ اطلاعات کے مطابق منی لانڈرنگ کے خلاف کارروائی شامل تھی تاہم مارکیٹ کا خیال یہ تھا کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے اور اپنے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کیلئے اقدامات کررہی ہے۔ ان تمام عوامل نے زرمبادلہ کی مارکیٹ میں حکومت کی اضطرابی کیفیت میں مزید اضافہ کیا اور موقع پرست عناصر نے بھی شرح مبادلہ کو مزید گھمبیر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اسی طرح اوپن مارکیٹ میں شرح مبادلہ میں اضافے کے سبب فی ڈالر کی قیمت 100 روپے سے بڑھ کر 104.7 روپے ہوگئی۔ جب کہ اصل اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی تجارت 106-107 روپے فی ڈالر میں ہورہی تھی۔ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کی شرح مبادلہ میں 5 سے 6 روپے فی ڈالر بڑھ گیا۔ یہ ایک سنگین صورتحال ہے کیوں کہ عام طور پر فی ڈالر پر منافع کی رقم 1 روپے یا 1.5روپے ہوتی ہے۔ اس بڑھتے ہوئے منافع کی وجہ سے سمندر پار پاکستانیوں میں نان بینکنگ (غیرقانونی) طریق کار سے پیسہ ملک میں بھیجنے کو فروغ ملے گا۔ اس سے ترسیل زرکو بھی بری طرح نقصان پہنچے گا۔ ترسیل زر میں کسی بھی کمی کی وجہ سے موجودہ خسارے کے لئے سنگین ہوسکتا ہے۔ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہیں کئے گئے تو زرمبادلہ کی مارکیٹ میں پاکستانی روپیہ ان موقع پرست عناصر کے رحم وکرم پر ہوگا۔
میں وزیر خزانہ سے پرزور مطالبہ کروں گا کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور اسے اکیلے اسٹیٹ بینک پر نہ چھوڑیں۔ میں وزیرخزانہ سے یہ بھی مطالبہ کروں گا کہ وہ صرف اور صرف معیشت پر توجہ مرکوز کریں اور اپنے آپ کو سیاسی معاملات میں نہ الجھائیں۔ ان کی کارکردگی کو معیشت کی کارکردگی سے پرکھا جائے گا۔ شرح مبادلہ میں مستقل مزاجی بھی آئی ایم ایف کی جانب سے تجویز کردہ معیشت کے کلاں کی روایتی پالیسیوں کا اہم حصہ ہے۔ مشاہداتی ثبوت بتاتے ہیں کہ زرمبادلہ میں کمی کا تعلق معاشی پیداوار میں کمی، غربت اور بے روزگاری میں اضافے، سرکاری شعبے میں سرمایہ کاری، کمزور تعمیری حکمت عملیوں ، مصارف زندگی میں اضافے منافع کی غلط تقسیم اور کم آمدنی والے گروہوں پر مزید بوجھ کے تبادلے سے ہے۔ بیس ملکی سربراہی کانفرنس (جی ٹوئنٹی) آئی ایم ایف کی جانب سے ہدایت کردہ معیشت کے کلاں کی روایتی پالیسیوں کو چھوڑدیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کی ترقی پذیر معشیت کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت کے وقت قیمتوں میں تبادلے کے ذریعے اپنی برآمد کو نہیں بڑھاسکتی جو مصیبت میں گھری صنعتی معیشت ہے۔ کرنسی کی قیمت گرنے سے برآمدکنندگان صنعتی اداروں کیلئے درآمد کی جانے والی اشیاء کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ اسی لئے قیمتوں کی ادائیگیوں کے وقت جس کی کرنسی کی قیمت بہتر ہوگی وہی فائدے میں ہوگا۔ مزید یہ کہ ہمیں 1990ء کے تجربے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کرنسی کی قیمت گرنے کی وجہ سے ہمیشہ ہی پاکستانی اشیاء درآمد کرنے والوں کو ہی فائدہ پہنچا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے باعث درآمد کنندگان پاکستانی برآمد کنندگان کو اشیاء کی قیمت گھٹانے پر مجبور کریں گے۔ وزیر خزانہ اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ اس کے برعکس کرنسی کی قدر گرنے سے پاکستانی معیشت پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ یہ سرکاری خسارے میں اضافہ کریگا اور اسی طرح سودی قرضوں کی واپسی میں بھی اثر انداز ہوگا۔ شرح مبادلہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ایک روپے کی کمی کی صورت میں حکومتی خسارے میں 60 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔ اسی لئے مالی خلاء کو پر کرنے کے لئے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پڑیں گے۔ مزید اہم یہ کہ اس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں درآمدی تیل کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس وقت نیپرا کے متعین کردہ بجلی کے نرخوں اور اصل نرخوں میں فی یونٹ 6 روپے کا فرق ہے۔ حکومت نے بجٹ میں فی یونٹ پر دو روپے کی سبسڈی کیلئے بجٹ میں 150 ارب روپے مختص کر رکھے ہیں جبکہ باقی 4 روپے کے فرق کو ختم کرنے کے لئے اہم اقدامات پر غور کررہی ہے۔ تمام حساب کتاب ٹھیک نہیں جارہا۔ بجلی کے اصل نرخوں اور اس کی قیمت میں فرق کو ختم کرنے کے لئے فوری طور پر قیمتیں بڑھائی جانی چاہیں۔ یہ ایک مرتبہ پھر گردشی قرضے میں مسلسل اضافہ کرے گا۔ یہ ایک سنگین صورتحال ہے اور اسے وزیر خزانہ کی پوری توجہ کی ضرورت ہے۔ میں ان سے پر زور مطالبہ کروں گا کہ وہ زرمبادلہ کی مارکیٹ میں موقع پرست عناصر کیخلاف فوری کارروائی کریں۔ موجودہ صورتحال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وزیرخزانہ کو ٹھیک طریقے سے آگاہ نہیں کیا گیا اور معاشی پالیسی کو ہنگامی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ہے۔ خدا پاکستان کی مدد کرے!