• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پل پل بدلتی سیاسی صورتحال نہایت پریشان کن ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ معاملات ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ جناب وزیر اعظم عمران خان کو خود ان حالات پر غور کرنا چاہئے۔ ان کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ وہ کون ہیں جن کے مشوروں پر چل کر ان کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا ہے؟کہتے ہیں کہ ہر سوراخ میں انگلی نہیں ڈالنی چاہئے کسی میں سانپ بچھو بھی ہوتا ہے۔ سمجھنے والے سمجھ گئے ہونگے۔ چیئرمین نیب کی تقرری و تعیناتی کا معاملہ ہو، نیب آرڈیننس ہو، ان میں کس نے ان کو روکا کہ وہ اپوزیشن لیڈر سے مشورہ نہ کریں؟ اسی طرح آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی میںٹال مٹول کا مشورہ بھی تو کسی نے دیا ہو گا۔ جب ہر معاملہ کے لئےایک طریقہ کار موجود ہے تو اس میں تبدیلی سے کیا حاصل کرنا ہے اور تبدیلی بھی ایسی کہ جس سے مثبت پہلو اور نتیجہ برآمد ہونے کا امکان تو کیا ہوگا بلکہ اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا زیادہ احتمال ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملات سلجھنے کے بجائے الجھتے جا رہے ہیں۔ روز بروز تلخیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ حکومتی وزراء اور مشیران جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں تو مریم نواز بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ اب تو سیاست میں جادو ٹونے اور پتہ نہیں کیا کیا شامل ہو گیا۔ خدا کے بندو سیاست کو سیاست ہی رہنے دو۔ ایسی سیاست پر لعنت جس میں ایک دوسرے کی عزت کی بھی پروا نہ کی جائے۔ حکومتی ذمہ داران کو بھی سوچنا چاہئے کہ وہ حکومت کےدفاع کے لئے الفاظ کا چنائو کس طرح کرتے ہیں۔ مریم نواز کی باتوں کو بنی گالہ کے ساتھ کیوں جوڑا گیا اور ان کی باتوں پر فوری ردعمل دینے اور ان باتوں کو اتنا اچھالنے کی کیا ضرورت تھی کہ خواہ مخواہ پوری قوم کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی۔ مریم نواز صاحبہ کو بھی چاہئے کہ اپنے جذبات کے اظہار کے لئے شائستہ طریقہ اختیار کریں اور اپنی ہر تقریر میں کسی نہ کسی کو الزامات کا نشانہ بنانے سے گریز کیا کریں۔ تمام سیاستدان بشمول حکمران مل بیٹھ کر سیاسی بیانات کے لئے قواعد و ضوابط بنائیں اور حدود و قیود کا تعین کریں۔ ورنہ ان کو رہنما کہنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہم ایک بدتہذیب اور شرافت سے عاری قوم ہیں اور ایسی ہی بیہودہ باتوں کو پسند کرتے ہیں جو آج کل ہماری سیاست میں استعمال ہو رہی ہیں جن کی نہ ہمارے مذہب میں اجازت ہے نہ ہی یہ ہماری معاشرتی اقدار ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے ایک بار پھر مریم نواز کو فرنٹ لائن پر لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اب وہ پہلے کی طرح جلسوں سے خطاب کریں گی۔ ظاہر ہے کہ اس میں میاں نواز شریف کی رضا مندی اور اجازت شامل ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نواز شریف کی ہدایت پر مختلف شہروں میں جلسوں اور ان میں مریم نواز کے خطابات کا شیڈول ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اس میں اب تک کے حالات و واقعات کے مدنظر کوئی شک نہیں کہ قیادت میں خاندانی اختلافات ہیں۔ حمزہ شہباز کے گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب کے دورے اور خطابات شاید مریم نواز کے میدان میں آنے کا باعث ہوں۔ آئندہ دو تین ماہ میں معاملات واضح ہو جائیں گے۔ مریم نواز کے نیب کی طرف سے ضمانت منسوخی کی درخواست کے مسترد ہونے کا امکان ہے۔ بہرحال یہ فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے۔ ہم حالات کو دیکھتے ہوئے صرف امکانات کی بات کر سکتے ہیں کیونکہ نیب درخواست میں ضمانت منسوخی کا موقف زیادہ جاندار نہیں ہے۔ بلوچستان میں جام کمال کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہنے کا امکان کم دکھائی دے رہا ہے۔ ممکن ہے کہ جن کے بھروسےپر وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور استعفیٰ نہیں دے رہے، وہ عین وقت پر دوسری طرف چلے جائیں۔ جام کمال وزیراعلیٰ رہیں یا نہ رہیں لیکن اس افراتفری اور بے یقینی کی صورتحال نے بلوچستان کے انتظامی معاملات اور مشینری کو گزشتہ ایک ماہ سے جام کر رکھا ہے۔ بلوچستان جو پہلے ہی غربت، دہشت گردی کے بعض واقعات اور انتظامی فقدان کا شکار ہے اب اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مزید ابتری میں مبتلا اور پیچھے چلا گیا ہے۔ وفاق ہو یا صوبے، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو قطعاً عوام کی فکر نہیں ۔ سب اپنے اپنے مفادات کے لئےدست و گریباں ہیں اور اگر یہی نظام چلتا رہا تو نہ ملک کی بہتری ہو سکتی ہے نہ ہی بدحال عوام کا کوئی بھلا ہو سکتا ہے۔

ملک جو پہلے ہی بدترین مہنگائی کا شکار ہے۔ آنے والے مہینوں میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ چینی کی قیمت میں اگلے ماہ نومبر یا اس سے پہلے مزید اضافے کا امکان ہے۔ پچاس ہزارمیٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کا ٹینڈر حکومت نے منسوخ کر دیا ہے کیونکہ مہنگی بولی کی وجہ سے یوٹیلیٹی اسٹورز پر بھی چینی کا نرخ 130 روپے سے زائد ہوتا۔ لیکن دوسری طرف یا تو اب چینی دستیاب نہیں ہوگی یا دکاندار کی من مانی قیمت پر خریدی جا سکے گی کیونکہ اب حکومت سبسڈی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں بھی حکومت کو سبسڈی دینے سے منع کیا گیا ہے۔ سردیوں میں گیس کا سخت بحران آنے والا ہے۔ گیس کی طویل لوڈشیڈنگ کے باوجود اس کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی نئی شرط عائد کر دی ہے اور ساتھ ہی ٹیکس بڑھانے پر زور دیا ہے۔ علاوہ ازیں گندم کی قیمت میں بھی مزید اضافہ متوقع ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں عالمی مارکیٹ کے مطابق مزید اضافے کا امکان ہے۔ علم الاعداد کے مطابق حکومتی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو سکتا ہے۔ نظام کی تبدیلی اور اگلے سال مارچ کے مہینے میں بہت کچھ تبدیل اور حقیقی تبدیلی آ سکتی ہے، باقی بہتر تو اللہ علم و خیر ہی جانتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین