• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی ایک خبر میری نظر سے گزری ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے شہرقائد میں واقع مہٹہ پیلس کا نام استعمال کرنے سے روک دیاہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق قائداعظم اور فاطمہ جناح کی جائیداد کی تقسیم کیلئے لواحقین میں مقدمہ بازی جاری ہے۔ مذکورہ خبر نے مجھے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے پر مجبور کردیا جب قیام ِ پاکستان سے صرف 14سال قبل کلفٹن کے علاقے میں تعمیر ہونے والا مہٹہ پیلس ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز ہوا کرتا تھا، یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریز کے دور ِ حکومت اور آزادی کے بعد بھی ایسی عظیم الشان اورپرشکوہ عمارت کبھی تعمیر نہیںہوئی ۔دو منزلہ مہٹہ پیلس راجستھان کے علاقے جے پور کے فن تعمیر کا ایک عملی نمونہ ہے جہاں مغلیہ دور کی جھلک بھی نظر آتی ہے، جب پہلی مرتبہ میں نے اس متاثرکن محل کا دورہ کیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں دورِ قدیم میں پہنچ گیا ہوں جب برصغیر پر راجاؤں مہاراجاؤں کی حکومت ہوا کرتی تھی،میری معلومات کے مطابق1933 میں تعمیر ہونے والے اس شاندار محل میں پوجا پاٹ کیلئے شِو مندربھی قائم کیا گیا تھا، تاہم اب اس کے آثار کہیں موجود نہیں۔کہا جاتا ہے کہ مہٹہ پیلس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا گلابی پتھر جودھ پور سے خصوصی طور پر منگوایا گیا تھا، بیرونی دیواروں پرنہایت خوبصورتی سے گْل بوٹوں اور پرندوں کی تصاویر تراشی گئی ہیں،سولہ کشادہ کمروں پر مشتمل مہٹہ پیلس کی ایک اور خاص شناخت دلکش گنبد، محرابیں اور مینار ہیں ۔ یہ عظیم الشان محل ثقافتی طور پر بھی نہایت دلچسپ تاریخ کا حامل ہے، قیام پاکستان سے قبل رائے بہادر شیورتن مہٹہ کا شمار کراچی کے امیر ترین ہندو کاروباری افراد میں ہوتا تھا ، انکا خاندان کلکتہ سے نقل مکانی کرکے کراچی میں آباد ہوا، رائے بہادر نے جہاز رانی اور جہاز سازی کے شعبے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔وہ اپنی بیوی سے بے پناہ محبت کرتے تھے جو ایک مہلک بیماری میں مبتلا تھی، اس حوالے سے ڈاکٹروں کا مشورہ تھا کہ اگر ساحلِ سمندر کے قریب رہائش اختیار کی جائے تو سمندری آب و ہوا سے ان کی صحت میں بہتر ی آسکتی ہے، یہ جاننے کے بعدانہوںنے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیوی کیلئے بحیرہ عرب کے کنارے کراچی میں ایک ایسا خوبصورت اور عظیم الشان محل تعمیرکرائیں گے جس کی مثال پورے خطے میں نہیںہو گی۔اور یوں برصغیر کی تاریخ کا ایک ایسا عظیم الشان محل کراچی کے کلفٹن کے ساحل پر مہٹہ پیلس کے نام سے تعمیر ہوا جس میں رہائش پذیر ہوکر جاں لیوا بیماری میں مبتلا انکی اہلیہ کی صحت تیزی سے بہتر ہونے لگ گئی۔ رائے بہادر نے اپنی بیوی کی مکمل صحتیابی کی خوشی میںاس پیلس میں ایک عظیم الشان جشن منانے کا فیصلہ کیا تو معزز مہمانانِ گرامی میں کراچی کے پہلے منتخب میئر جمشید وانجی مہتہ سمیت مختلف سماجی معزز شخصیات شامل تھیں۔ رائے بہادر شیورتن کو اپنی اہلیہ کے ساتھ مہٹہ پیلس میں زیادہ عرصہ گزارنا نصیب نہیں ہوا کہ انگریز کے برصغیر سے جانے کا وقت آگیا۔تقسیم ِ ہند کا اعلان ہوا تورائے بہادر مہٹہ کو بھی اپنی اہلیہ سمیت کراچی سے ہجرت کادُکھ سہنا پڑ گیا۔ نوزائیدہ مملکت پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں امورِ مملکت چلانے کیلئے مہٹہ پیلس میں وزارتِ خارجہ کا دفتر قائم کردیا گیا جو نئے دارالحکومت اسلام آبادمنتقلی تک قائم رہا۔ نیادارالحکومت بننے کے بعد مہٹہ پیلس کی تاریخ میں ایک اورنمایاں موڑ آیا ہے جب حکومت نے یہ شاندار محل بانی پاکستان کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے کردیا،مادرملت کی نسبت سے اس محل کو قصر فاطمہ بھی کہا جانے لگا، تاہم مادرملت کی پراسرارموت کے بعدمہٹہ پیلس کی ملکیت کیلئے مقدمہ بازی کا آغاز ہوگیا،لواحقین کی جانب سے دائرکردہ درخواستوں کے فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ نے مہٹہ پیلس محترمہ فاطمہ جناح کی بہن شیریں جناح کے حوالے کردیا، ان کی بہن 1980ء تک یہاں رہائش پذیر رہیں لیکن ان کی وفات کے بعد بھی لواحقین کےتنازعات جاری رہے جس کے باعث مہٹہ پیلس سیل کردیا گیا۔عظیم رائے بہادر مہٹہ اور ان کی بیوی کی محبت کی نشانی مہٹہ پیلس لگ بھگ ایک دہائی تک ویرانیوں کا شکار رہا، جہاں کبھی زندگی کی رونقیں عروج پر ہوا کرتی تھیں، وہاں اندھیروں کا راج ہوگیا۔نوے کی دہائی میں حکومت سندھ کی درخواست پروزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے صوبائی محکمہ ثقافت کو مہٹہ پیلس خریدکر بحال کرکے میوزیم میں تبدیل کرنے کیلئے فنڈز فراہم کئے، عظیم الشان محل کی دیکھ بھال کیلئے ایک خودمختار بورڈ آف ٹرسٹینر بھی قائم کیاگیا، پیلس کو اس کے اصلی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے سندھ کا ثقافتی میوزیم بنا دیا گیا، ثقافتی سرگرمیوں کے موجودہ مرکز کی آفیشل ویب سائٹ بھی مہٹہ پیلس میوزیم کے نام سے موجود ہے۔ آج عدالت میں جاری مقدمہ بازی کی وجہ سےمہٹہ پیلس ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بن گیا ہے، اس حوالے سے میرا یہ موقف ہے کہ کسی بھی عمارت یا علاقے کا نام تبدیل کرتے ہوئے اخلاقی اقدار کو بھی پیش نظر رکھا جائے،ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ماضی میں کراچی کی ترقی و خوشحالی کیلئے مہٹہ خاندان سمیت غیرمسلم کمیونٹی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، تقسیمِ ہند کے بعد بھی انہوں نے کراچی کو خیرباد کہتے ہوئے اپنا محل نیک خواہشات کے ساتھ حکومت پاکستان کے حوالے کیا تھا۔ ہمیں مہٹہ پیلس جیسے عظیم ثقافتی ورثے کی اصل شناخت برقرار رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین