اسلام آباد(بلال عباسی) نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی،نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے عدالت کو بتایا کہ قتل میں نے کیا تھا، پسٹل میرے باپ کا ہے، قربانی اسلام میں بھی جائزہے اور نور مقدم نے خود کو قربانی کے لیے پیش کیا، مجھے گھر میں قید کر دیں جیل میں مجھے مارتے ہیں، پھانسی دے دیں میں جیل میں نہیں رہ سکتا، ملزم نے کمرہ عدالت میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر معافی مانگی اور کہا کہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے مرنا نہیں چاہتا، میری شادی ہونی چاہیے۔ جمعرات کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطاء ربانی نے نور مقدم قتل کیس میں فرد جرم عائد ہونے سے روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔ سماعت کے دوران ملزمان عصمت آدم ، ذاکر جعفر، طاہر ظہور کے وکلاء نے دلائل دیے، دوران سماعت ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ وکیل رضوان عباسی میرا وکیل نہیں مجھے بولنے کا موقع دیا جائے، جس پر وکیل نے کہاکہ میں ملزم ذاکر جعفر کا وکیل ہوں، ظاہر جعفر نے کہا کہ میں ایک فون کال کرنا چاہتا ہوں مجھے اجازت دیں، میں اس کیس کو مضبوط کرنے کے لیے کال کرنا چاہتا ہوں، رضوان عباسی ایڈووکیٹ نے کہاکہ ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے شواہد ناکافی ہیں۔ دوران سماعت مدعی مقدمہ شوکت مقدم نے صحافیوں سے سرگوشی کرتے ہوئے کہاکہ ظاہر جعفر جھوٹ بول رہا ہے، ملزم ظاہر جعفر نےکہاکہ میرے ساتھ کھڑے ملزمان نے اس کو مارا ہے، ملزم ظاہر جعفر نے عدالت سے کہاکہ آپ چارج لگا رہے ہیں یا نہیں ، ملزم افتخار نے کہاکہ ان کی دوستی تھی دو سال سے آنا جانا تھا ، میں غریب ہوں مجھے کیا پتہ تھا معاف کردیں، ملزم ذاکر جعفر کے وکیل کے دلائل کے دوران ملزم ظاہر جعفر کا بیان پڑھنے پر ملزم نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ہاتھ جوڑ کر عدالت سے معافی مانگی اور کہاکہ میں جیل کی سلاخوں میں مرنا نہیں چاہتا میری شادی ہونی چاہیے بچے ہونے چاہئیں،وکیل جو کچھ کہہ رہا ہے بے بنیاد ہے مجھے چھوڑیں، ہم لڑے تھے میری غلطی تھی وہ بھی غصے میں تھی، ملزم ظاہر جعفرنے مدعی مقدمہ شوکت مقدم سے کہاکہ میں اور آپ کی بیٹی پیار کرتے تھے،تین سال ہم تعلق میں رہے ہیں،میری زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے آپ مجھے بچا سکتے ہیں،آپ میری زندگی لینا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے،وکلاء کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔