اُم زہرہ
ایک بیج سے پھل دار درخت بننے تک کا دورانیہ مالی کے لئے ایک طویل مشقتوں بھرا تجربہ ہوتا ہے۔ اُس میں پانی کی مناسب مقدار ہفتہ وار گوڈی، کھاد کا حسب موقع استعمال، سردی اور گرمی سے بچاؤ کا انتظام وغیرہ شامل ہیں۔ کسی ایک چیز میں غفلت اس کی نشوونما میں خرابی کا باعث بن سکتی ہے۔
سالہا سال کی محنت کے بعد ایک پھل دار درخت پروان چڑھتا ہے۔ماں باپ اور استاد کا کردار بھی ایک مالی جیسا ہوتا ہے ،اُن کی شخصیت بنانے کے لیے محبت کے پانی کی مناسب مقدار، زمانے کی سردی اور گرمی سے بچاؤ کا انتظام، بری صحبت سے بچاؤ ،نیک صحبت کی کھاد، مسلسل اور انتھک محنت کے بعد پھل دار درخت کی مانند شخصیت سنورتی ہے۔ بچپن سے جوانی تک کا دور انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، خاص کر جب بچے’’ٹین ایج ‘‘میں قدم رکھتے ہیں۔
تیرہ سے اُنیس سال کےدور میں وہ اپنی عُمر کے حسین، اہم ترین دَور سے گزر رہے ہوتے ہیں، ایسے میں ایک ایک لمحہ، ایک ایک پل حساس اور سنجیدہ ہوتا ہے۔اس عمر میں بچے، احساس کی انوکھی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی سوچ روایتوں کی قید سے باہر نکلنے کے لیے پر تولنے لگتی ہے۔ یوں نئی اور پرانی سوچ میں ٹکراؤ جنم لیتا ہے۔
ٹین ایجرز کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ یہ پھولوں کی طرح ہوتے ہیں، انھیں تربیت کے گلدان میں سجانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس عمر کے بچوں کا پل پل بدلتا مزاج ، چڑچڑاہٹ ، ہٹ دھرمی اور بدتمیزی ان کے لیے ہی نہیں ان سے منسلک رشتوں خصوصا والدین کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔
تعلقات کے حوالے سے موجودہ دورخاصا پیچیدہ ہوتا ہے، خاص طور پر اولاد اور والدین کے درمیان تعلق۔ کم عمر بچے والدین پر انحصار کرتے ہیں لیکن شعور کے زینوں پر قدم رکھتے ہی ان میں خواہشات جنم لینے لگتی ہیں، جیسے آزادی رائے کا حق، اپنی عزتِ نفس کا تحفظ، اپنا کیرئیر، خود کو منفرد دکھانے کی خواہش، چھوٹے چھوٹے فیصلے خود لینے کا اختیار وغیرہ، مگر جب ٹین ایجزز کو یہ حقوق والدین کی جانب سے نہ ملیں تو وہ بہت سے مسائل سے دوچار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی شخصی خوبیوں سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔
مثلاََ خود اعتمادی کی کمی ، معمولی معمولی فیصلےکرنے میں خودکو نا اہل سمجھنا،جذبات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت سے محرومی یا پھراپنے جذبات کا اظہار نا کر پانا وغیرہ۔ وہ ان تمام پابندیوں کو خود کے ساتھ ناانصافی سمجھنے لگتے ہیں۔
والدین اپنی اولاد کو ہمیشہ چھوٹا ہی سمجھتے ہیں، چاہے وہ جوانی کی دہلیز پر قدم ہی کیوں نہ رکھ دیں۔ اُن کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے وہ ابھی بچے ہیں۔یہ بات بھول جاتے ہیں کہ عمر کے ساتھ جذبات اور احساسات میں بدل جاتے ہیں ۔ اکثر والدین اس کو نہیں سمجھ پاتے ،بچوں کو کھل کر بات کرنے کا موقع نہیں دیتے ، نہ ہی اُن کی رائے اور پسند کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہمیشہ اپنی مرضی مسلط کرنا، اُن کی غلطی کو بار بار دہرا کر شرمندہ کرنا، ہر بات کو کریدنا اور ہر وقت اُن کو کٹہرے میں کھڑا رکھنا، دوسروں کے سامنے اُن کی بے عزتی کرنا،ُ دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنا وغیرہ ۔یہ سب چیزیں نسلِ نو کی بے راہ روی کا سبب بنتی ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ ٹین ایج میں داخل ہوتے ہی اس کو احساس دلائیں کہ اب تم بچے نہیں ہو ویسے بھی اس دور میں نسلِ نو دنیا کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ سمجھنا بھی شروع کر تے ہیں ۔ یہ دوران کے اندر تخلیقی صلاحیت کو بیدار کرتا ہے۔ اس وقت والدین کو اپنی اولاد کے احساسات سمجھنا، منتشر سوچوں اور جذبات کو یکجا کرنا بڑی مہارت کا کام ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ کسی چیز کے نہ ملنے پر غم زدہ ہے تو ممکن ہے وہ اسےغصے کی صورت میں ظاہر کرے،ایسے میں والدین کو ہی اسے سنبھالنا ہوگا۔
ٹین ایج میں لڑکے زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنا پسند کرتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ بعض والدین اس معاملے میں اس قدر سختی برتتے ہیں کہ وہ باغی ہوجاتے ہےیا پھر اتنی ڈھیل دے دیتے ہیں کہ وہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں، لہٰذا میانہ روی سے کام لیں۔اُن کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کریں۔
نسل نو کو صحیح راہ دکھانا ،ان کی تربیت کرنا، صحیح غلط کا فرق سمجھانا، ماں باپ کا فرض ہے۔آج کل ماں باپ کے پاس اولاد کے مسائل سننے اور اُنہیں حل کرنے کا وقت ہی نہیں، جب ہی ان کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں، اسی لیے اب نوجوان، والدین سے باتیں چھپانے لگے ہیں اور اپنے مسائل خود حل کرنے کی کوشش میں اکثر غلط راہ اختیار کر لیتے ہیں۔
ان کے مسائل نہیں سنیں گے، انہیں حل نہیں کریں گے، ان کی کامیابی پر حوصلہ افزائی نہیں کریں گے، ان کی ناکامی پر ان کو ہمت نہیں دلائیں گے تو وہ متبادل راستے ہی تلاش کریں گے ۔ سختی اور جارحانہ انداز سے کبھی وہ نتائج نہیں ملتے، جو محبت، سمجھداری سے حاصل ہوتے ہیں۔