• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے اپنے دارالحکومتوں سے آنے والے غیر ملکی وفود واپس چلے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں معمول کی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں اور اقوام متحدہ کی کمیٹیاں مختلف مسودوں، قراردادوں اور دستاویزات پر کام کر رہی ہیں تاکہ انہیں کچھ شکل اور سمت دی جا سکے۔یو این جی اے کے پہلے دن کے سیشن میں دوسرا خطاب امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا تھا جس میں انہوں نے ممکنہ ’’سرد جنگـ ‘ ‘ یا چین کے گھیرائو کا کوئی براہ راست حوالہ نہیں دیا لیکن عالمی برادری کو مطلع کیا کہ موجودہ دہائی کے اختتام تک یہ دنیا تبدیل ہو چکی ہو گی۔

واشنگٹن واپسی پر صدر جو بائیڈن کو اندرونی طور پر بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے جن کا بالواسطہ اثر پوری دنیا پر ہو سکتا ہے۔ قومی قرض کی حد کو بڑھانا ان کی صدارتی فہرست میں موجود اہم ترین چیلنج ہے کیونکہ اس میں ناکامی کی صورت میں امریکہ دیوالیہ ہو جائے گا۔ بائیڈن کی انفرا سٹرکچر سے متعلق ’’بلڈ بیک بیٹر‘‘(Build Back Better) منصوبے کی منظوری، جس کی لاگت 3.5 ٹریلین ڈالر سے 4.5 ٹریلین ڈالر تک ہوگی، خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ان کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند قانون ساز اس کا راستہ روک رہے ہیں۔حریف ، رپبلکن بھی اکثریتی جماعت، ڈیموکریٹک پارٹی کی اندرونی کشمکش پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

مشی گن ریاست کے دورے کے دوران صدرجو بائیڈن نے کانگریس کے رہنماؤں اور حاضرین کو بتایا کہ ان کی مالی تجاویز امریکی معیشت میں نئی زندگی ڈالیں گی، لیکن رپبلکن اپنی جگہ ڈٹے ہیں جبکہ ان کے اپنے ترقی پسند اورمعتدل ڈیمو کریٹس بھی منقسم ہیں۔ سینیٹ میں رپبلکن ایسے قانونی عمل کی بات کررہے ہیں جس کی منظوری کے لئے اکاون کی بجائے ساٹھ سینیٹروں کی حمایت درکار ہوگی۔ ڈیموکریٹ اور رپبلکن کے درمیان منقسم سینیٹ کے اراکین کی کل تعداد ایک سو ہے ۔

اس کے علاوہ افغانستان سے امریکی انخلاپر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ کچھ امریکی فوجی جرنیلوں کے اختلافی بیانات کے ساتھ ساتھ عام تاثر یہ ہے کہ افغانستان سے انخلا کے فیصلے نے امریکہ کے عالمی طاقت کی حیثیت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مختصر یہ کہ صدر بائیڈن اپنی سیاسی بقاکی جنگ لڑ رہے ہیں اوران کے اور مخالفین کے پلڑے ایک ہی سطح پر ہیں۔ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یہاں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک تھے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے اسمبلی سے ایک موثر آن لائن خطاب کیا۔اس سے اگلے دن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اقوام متحدہ سے خطاب کیا۔ مودی شخصی طور پر وہاں موجود تھے۔

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی ملاقاتوں کا ایک لمبا سلسلہ تھا، جس میں زیادہ تر دوسرے ممالک کے ہم منصبوں کے ساتھ نشست تھی۔ ان کا اقوامِ متحدہ جانے کا بنیادی مقصد کشمیر کی صورتحال اور بھارتی جابرانہ کارروائیوں کو دنیا میں اجاگر کرتے ہوئے اس کے حق میں تعاون حاصل کرنا تھا۔ان دو طرفہ ملاقاتوں کی فہرست کا ایک سرسری جائزہ بھی ان کے مقاصد بتا دیتا ہے، جس میں ناروے، مصر، یورپی یونین، ترکی، سعودی عرب اور دیگر شامل ہیں۔ نیو یارک میں او آئی سی رابطہ گروپ کا اجلاس ایک سالانہ معمول ہے جس کا مقصد بغیر اقدامات یا کوئی سمت اختیار کئے کسی مسئلے کے حل کے لئے قراردادیں منظور کرنا ہے۔ او آئی سی رابطہ گروپ کا اجلاس ہمارے سفیر منیر اکرم کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں صدر آزاد کشمیر سلطان محمود اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین شہریار آفریدی نے بھی شرکت کی۔

وزیر خارجہ کی تمام مصروفیات کو (سوائے عوامی اجتماعات اور اختتامی پریس کانفرنس کے) میڈیا سے دور رکھا گیا۔ ان دو طرفہ ملاقاتوں کا وقت، مقام، دورانیہ بھی خفیہ رکھا گیا۔ صرف یک طرفہ پریس ریلیز، تصاویر اور دیگر تفصیلات جو پاکستانی مشن یا ایم او ایف اے کی طرف سے جاری کی گئی ہیں اس سے ہی کچھ اندازہ ہوا کہ کیا ہو رہا ہے؟ نیو یارک جیسے آزاد شہر میں میڈیا کو ایک طرح کی سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کے ساتھ ملاقات آخری لمحات میں طے کی گئی اور پاکستانی وفد امریکی وزیر خارجہ سے ملنے کے لئے ایک ہوٹل گیا۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید اور اقوام متحد ہ میں مستقل مندوب منیر اکرم پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے جبکہ پاکستان کے ازلی ناقد، زلمے خلیل زاد امریکی ٹیم میں شامل تھے۔ یہ ملاقات توقع سے زیادہ دیر تک جاری رہی، کیونکہ مذاکرات کا مرکزی نقطہ افغانستان تھا۔ پاکستانی وفد نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کوبھی اٹھایا، لیکن دوسری طرف سے کوئی ٹھوس جواب نہیں ملا۔ یہ ہماری عمومی پالیسی رہی ہے کہ ہم اپنی میٹنگ میں جس چیز پر زور دیتے ہیں اس کا اعلان کرتے ہیں، لیکن ہم نے شاذ و نادر ہی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ دوسرے فریق نے جواب میں کیا کہا؟1971 میں ہنری کسنجر کو چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا تاریخی موقع فراہم کیا لیکن ہماری اس سہولت کاری کا انجام یہ ہوا کہ انڈیا اور سوویت گٹھ جوڑ نے پاکستان کو دولخت کردیا۔ پچاس سال بعد، پاکستان خطے میں ایک بار پھر امریکہ اور بھارت کے عزائم کا ہدف ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کی سفارتی بصیرت کا شکریہ !

مصنف امریکہ میں مقیم صحافی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین