پنجاب میں کرپشن، مہنگائی اور سروس ڈلیوری کے حوالے سے جن اقدامات کا آغاز کیا گیا ہے اس سے امید کی ایک نئی کرن دکھائی دے رہی ہے۔ چیلنجز بہت بڑے ہیں لیکن صوبے میں افسر شاہی کی قیادت کی تبدیلی سے کچھ اچھا ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ پنجاب میں تعینات کرپٹ افسران کا آہستہ آہستہ بستر گول کیا جا رہا ہے۔ بعض کو تو رشوت لے کر ٹرانسفر پوسٹنگز کرنے پر نہ صرف تبدیل کیا گیا بلکہ وفاقی حکومت کو سرنڈر کردیا گیا۔ بیورو کریٹس کو کچھ ایسی مشکلات درپیش تھیں جن کی وجہ سے وہ صحیح کام کرنے سے گریزاں تھے لیکن اب ان کو بھی نیب کے خوف سے نکالنے کے علاوہ TENURE POSTING کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری نے تو اپنے طور پر افسران کو یقین دہانیاں کروائی ہیں کہ صحیح کام کرنے پر نیب ان کو کچھ نہیں کہے گا۔ نئی قانون سازی کی وجہ سے نیب خود بھی کچھ ڈانواں ڈول ہوا ہے اور شاید اس کا (IMPETUS) وہ نہ رہے لیکن اس کے باوجود نیب کو یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کسی افسر کے خلاف کارروائی کرے یا نہ کرے۔ بیورو کریٹ بڑا سمجھ دار ہوتا ہے وہ پہلے (TANGIBLE)ثبوت دیکھے گا کہ نیب پالیسی میں کچھ بدلائو آیا ہے یا نہیں اور پھر سنجیدہ ہو کر کسی کام کو ہاتھ ڈالے گا۔ چیف سیکرٹری کے اصلاحاتی ایجنڈے میں افسران کے اعتماد کو پھر سےبحال کرنے کے لئے گرائونڈ پوزیشن تبدیل کرنا ہوگی۔ جس دوسرے اہم مسئلے کوکافی حد تک حل کیا گیا ہے وہ تعینانی کی مدت کی کم از کم حد مقرر کرنا ہے۔ پالیسی سازی کے لئے ایک اہم ترین اقدام یہ ہوتا ہے کہ حکومت کسی ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور ڈویژن میں کمشنر تعینات کرے تو پھر اس کو فوری تبدیل نہ کرے۔ آئے روز کے تبادلوں سے پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہتا۔ اس ایشو پر بھی سنجیدگی دکھائی جا رہی ہے اور آئے روز اہم انتظامی عہدوں پر تبادلوں کا سلسلہ روکنے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔ چیف سیکرٹری کی ورکنگ سے لگتا ہے کہ کرپٹ افسران سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ انتظامی سیکرٹریوں اور کمشنروں کی تعیناتیوں کے حوالےسے نیک نام اور ڈلیور کرنے کرنے والے افسران کے ناموں کا بڑی احتیاط سے تجزیہ کیا جا رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ نئی ٹیم اچھی اقدار کی حامل ہو۔ ملک کے دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میںبھی کرپشن ایک بڑا ایشو ہے۔
چیف سیکرٹری اینٹی کرپشن اور خاص طور پر وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم کی کارکردگی کو دیکھیں۔ گزشتہ 3برس میں وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم کی کوئی کارکردگی میڈیا میں نہیں آئی جس سے لگتا ہے کہ کرپشن کا واچ ڈاگ ہونے کے باوجود یہ ادارہ کوئی کام نہیں کر رہا اور غیر فعال ہے۔ اگر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے اندر کرپشن ہےتو اس کوبھی ختم کیا جائے کیونکہ پنجاب میں شفافیت اور احتساب کے حوالے سے جو میکنزم موجود ہے اس میں یہ دو ادارے انتہائی اہم ہیں۔ پنجاب ملک کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اس لئے مہنگائی بڑھنے سے زیادہ متاثر بھی یہی صوبہ ہوتا ہے۔ جب ڈپٹی کمشنر کے پاس مجسٹریسی کے اختیارات ہوتے تھے تو حالات بہتر تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر خود سزائیں سناتے تھے۔ مہنگائی کرنے والوں کو فوری سزائوں اور جرمانوں کا ڈر تھا لیکن انتظامیہ کے پاس وہ اختیارات نہیں۔ شاید اب کبھی پاکستان کے طاقتور ادارے جو اختیارات اور (SPACE) لے چکے ہیں عوام کے بہترین مفاد اور ان کی مشکلات میں آسانی کے لئے بھی واپس نہ کریں۔ ایک سوچ جو پہلی مرتبہ موجودہ چیف سیکرٹری میں دیکھی اور جس سے بیوروکریسی بھی حیران ہے وہ جمہوریت پر یقین رکھنا ہے۔ ان کا خیال اور سوچ ہے کہ بیوروکریٹس بھی عوامی اقتدار کے تحت ہی طاقت میں آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عوام سیاستدانوں کو ووٹ دیتے ہیں، سیاستدان قانون سازی کرتے ہیں جس پر بیوروکریسی عملدرآمد کرواتی ہے۔ اس کا مطلب ہے بیورو کریسی کی طاقت کے پیچھے بھی عوام کی طاقت ہی ہوتی ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کےلئے منڈیوں کے ریٹس کو درست کرنا ضروری ہے جس کا انہوں نے عزم کر رکھا ہے۔ پاکستان میں قیمتیں بڑھانے والے مافیاز کا گٹھ جوڑ خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے جن کے سامنے بڑے بڑے بے بس نظر آتے ہیں۔
مسائل اتنے ہیں کہ ہر مسئلے کی کڑی دوسرے سے جا ملتی ہے۔ پنجاب میں جلد ایک اور بحران آنے والا ہے جو سینئر عہدے کے افسران کی کمی کا ہوگا۔ میری اطلاع کے مطابق وزیراعظم سیکرٹریٹ میں روٹیشن پالیسی کے تحت صوبوں میں موجود گریڈ 19 اور 20 کے افسران کو دوسرے صوبوں اور وفاق میں تبدیل کرنے کے حوالے سے ایک سمری پڑی ہے جس پر وزیر اعظم کی منظوری ہونا ہے۔ پنجاب میں پہلے ہی گریڈ 20 کے افسران کی کمی ہے اور حالیہ سنٹرل سلیکشن بورڈ میں کئی افسروں کی گریڈ 21 میں ترقی ہوگئی ہے۔ اب کچھ روٹیشن پالیسی کا شکار ہوں گے اور کچھ گریڈ 21 میں ترقی حاصل کرکے یہاں سے چلے جائیں گے۔ میری اطلاعات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے چیف سیکرٹری پنجاب کو مستقبل میں روٹیشن پالیسی اور ترقیوں کے بعد ٹرانسفر ہونے والے گریڈ 20 کے ان افسروں کے بدلے نئے افسران دینے کی تاحال کوئی یقین دہانی نہیں کروائی جس سے صوبے میں انتظامی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس اہم مسئلے پر غور کرکےاس کا حل ضرور نکالے۔