• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی آپ نیلسن منڈیلا، باکسر محمد علی اور ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے ہیروزکی زندگی کے آخری مہ و سال دیکھیے۔ کروڑوں دلوں پہ راج کرنے والے غیر معمولی لوگ بھی اپنے آخری برسوں میں موت ہی کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کا حال یہ ہے تو عام لوگ زندگی میں زیادہ سے زیادہ کیا حاصل کر سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں، کبھی کبھی انسان سوچنے لگتاہے کہ اسے پیدا ہی کیوں کیا گیا؟ ایک ایسی زمین پرجہاں ایک پتہ بھی خالق کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔

یہاں اس زمین پر ہر چیز توپہلے سے طے شدہ ہے۔ ماں باپ، زمین پر قیام کی جگہ، رزق یعنی ہر وہ چیز جسے انسان نے پہننا، اوڑھنا یا استعمال کرنا ہے؛حتیٰ کہ ذہنی صلاحیت اور رجحان بھی۔ اگر آپ ایک روز اچانک دفتر سے واپسی پر راستہ بدلتے ہیں اور اچانک وہاں آپ کسی ریڑھی سے کچھ کھا لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جگہ سے آپ کا گزر بھی لکھا ہوا تھا۔ قرآن میں یہ لکھا ہوا ہے: زمین میں چلنے پھرنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں، جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور وہ جانتا ہے کہ وہ (جاندار) کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سپرد کیا جائے گا۔ سورۃ ھود، 6۔

کون سی ماں کے رحم میں کس بچّے نے جنم لینا ہے اور موت کے بعد اسے کس جگہ دفن کیا جانا ہے، یہ سب طے ہے۔ دنیا کا نظام چلانے کے لیے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈالی گئی ہے۔ ماں باپ اگر اولاد سے اپنی ذات سے زیادہ محبت نہ کرتے تو کبھی اسے پال نہ سکتے۔ پہلے دن سے وہ ان کے لیے زحمت کا باعث ہوتا ہے۔ بار بار وہ روتا اور انہیں متوجہ کرتاہے۔چیزیں اس حد تک طے شدہ ہیں کہ خوراک کا ہر وہ ذرہ جسے ہم کھاتے ہیں، کپاس کا ہر وہ ٹکڑا، جس سے میرا لباس بنے گا، لوہے کا وہ ٹکڑا، جس سے میری گاڑی بنے گی، تیل کا وہ قطرہ، جو میری گاڑی میں استعمال ہوگا، مقررہے۔ کوئی اور اسے استعمال نہیں کر سکتا۔کس پودے کے کس پتے سے پیدا ہونے والا آکسیجن کا کون سا ایٹم میرے جسم نے استعمال کرنا ہے، یہ طے شدہ ہے۔ جیسے ہی آپ نے اپنارزق کھا لیا، جسے پیدا تو آپ کے جسم سے باہر کیا گیا لیکن تھا وہ آپ کے جسم ہی کا حصہ تو فوراًآپ مر جائیں گے۔

ایک انسان اس دنیا میں کیا کارنامے سر انجام دے سکتاہے۔ بڑے سے بڑے فاتح کی زندگی دیکھ لیجیے۔ جہاں آپ کو وہ ملک فتح کرتا نظر آئے گا، وہیں بیماری کے سامنے آپ اسے جھکا ہوا بھی دیکھیں گے۔ظہیر الدین بابر اور سکندرِ اعظم کو دیکھ لیں۔ بڑے بڑے فاتحین کو آپ بے بسی کے ساتھ بستر پر مرتا دیکھیں گے۔ انسان آج ترقی کے جس درجے تک بھی جا پہنچا ہے، وہ زمین سے اگنے والے دانہ گندم کا محتاج ہے۔وہ سبز پتے سے پیدا ہونے والی آکسیجن کا محتاج ہے۔زمین معدنیات اگلنا، غلہ اگانا چھوڑ دے اورآسمان بارش نہ برسائے تو کہاں سے ہم اپنی ضروریات پوری کریں گے؟

یہ بات درست ہے کہ انسان دوسرے سیاروں پر اترنے کی تیاری کر رہاہے لیکن کوئی سیارہ ایسا نہیں جو مستقل جائے پناہ مہیا کر سکتا ہو۔ آکسیجن، پانی، بارش، پودوں،اوزون، مقناطیسی میدان، بھاری آب و ہوااور مناسب درجہ حرارت سے محروم،وہ تو ایسے جہنم زارہیں، جہاں کی زندگی موت سے بدتر ہے۔ یہیں ایک دن نسلِ انسان کو مکمل طور پر ختم ہوجانا ہے۔ آدمی ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کی جوانی چند عشروں میں ختم ہو جاتی ہے۔ اس جوانی کا بیشتر حصہ بھی رزق کمانے اور نیند کی نذر ہوجاتاہے۔ انسان اتنا کمزور ہے کہ وہ زیادہ عبادت بھی نہیں کر سکتا۔ اس کا جسم روزانہ کئی گھنٹے کی نیند مانگتاہے، غذا مانگتا ہے، بیماری میں آرام مانگتاہے۔ اس کا بچپن اور شدید بڑھاپا عقل سے عاری ہو تاہے۔ اسے اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے آٹھ آٹھ گھنٹے مزدوری کرنا پڑتی ہے۔ انسانوں کی اکثریت بہت زیادہ مضبوط قوتِ ارادی کی مالک نہیں۔ کبھی انسان نیکی کے راستے پر چلنے کا ارادہ کرتاہے۔ پھر کبھی پھسل جاتا ہے۔جب کہ جن دوسری مخلوقات کا ذکر ہم پڑھتے ہیں، وہ ہمیشہ ہر وقت خدا کی تسبیح میں مصروف رہتی ہیں۔ انسان کا تو جسم ہی ایسا ہے کہ اس کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں۔ پیٹ کے اندر آنتوں میں گند بھرا ہوا ہے۔ کبھی بلڈ پریشر کم ہوجاتاہے، کبھی شوگر بڑھ جاتی ہے۔ کوئی انسان کتنا ہی نیک اور کتنے ہی علم والا کیوں نہ ہو، اس سے غلطی پر غلطی سرزد ہوتی ہے۔ کبھی غصہ آجاتا ہے، کبھی خودغرضی چھا جاتی ہے۔ انسان کے اندر اتنی خواہشات رکھی گئی ہیں، اپنی ذات کی ایسی شدید محبت رکھی گئی ہے کہ الامان الحفیظ۔ ان حالات میں انسان سوچنے لگتا ہے کہ آخر میرے اس قدر کمزور اور ڈگمگاتے وجود کو پیداہی کس لیے کیا گیا۔اپنے غموں اور دکھوں کی دلدل میں دھنسا ہوا انسان آخر بے بس ہو کر رونے لگتاہے۔ وہ پوچھتاہے اپنے رب سے، مالک! کیوں پیدا کیا مجھے؟

صرف اور صرف دو میں سے ایک چننے کے لیے۔ دو میں سے ایک کیا ہے۔ وہ جو حضرت امام حسین ؓ کے سامنے رکھا گیا تھا کہ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی زندگی یا وقتی اذیت کی انتہا مگر انسانی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والااعزاز۔ چھوٹا سہی مگر ہم سب کی زندگیوں میں بھی دو میں سے ایک کا انتخا ب بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ اب فرض کریں کہ آپ وقتی راحت کا انتخاب کرتے ہیں تو ایک نہ ایک دن مرنا تو آپ نے پھربھی ہے۔ یہ دنیا تو ایک دھوکے کی جگہ ہے۔ دماغ میں کیمیکلز کے اخراج سے بڑا دھوکہ اور کیا ہو سکتاہے، جو دنیا کی تمام لذتوں کی بنیاد ہے اور جس سے دن رات ہم سب گزارے جا رہے ہیں!

تازہ ترین