• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج صبح جب میں سو کر اٹھا تو مجھے لگا کہ میں ایک عظیم آدمی ہوں، اتنا عظیم کہ ’’خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں‘‘۔ اپنی عظمت کا یہ احساس مجھے کافی دنوں سے ہو رہا تھا مگر کسرنفسی کی وجہ سے اظہار نہیں کر پایا، ایک آدھ خواب بھی ایسا دیکھا جس میں میری ملاقات کچھ عظیم ہستیوں سے ہو رہی ہے اور وہ میرے ہاتھ چومتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ ہم نے تو یونہی جھک ماری، اصل میں تو آپ عظیم انسان ہیں۔ میں نے ایک بابا جی سے اس خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے پہلے تو خشمگیں نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور پھر جیب سے ہاضمے کی دو گولیاں نکال کر دیتے ہوئے کہا کہ رات سونے سے پہلے کھا لینا پھر ایسے خواب نہیں آئیں گے۔ بابا جی نے شاید اس سے پہلے کوئی بڑا آدمی نہیں دیکھا تھا اس لئے میں نے اُن کی بات کا برا نہیں منایا اور سو کا نوٹ ان کے ہاتھ پر رکھ کر چلا آیا۔ بابا جی نے البتہ میری حرکت کاخاصا برا منایا تاہم سو کا نوٹ واپس نہیں کیا۔ میری لائبریری میں ’’عظیم آدمیوں کی دس نشانیاں‘‘ اور ’’عظیم آدمیوں کی سات عادات‘‘ ٹائپ کئی کتابیں ہیں مگر میں نے انہیں کبھی سنجیدگی سے پڑھنے کی کوشش نہیں کی البتہ جب سے میں عظیم ہوا ہوں تب سے ان کتابوں کو بھی غور سے پڑھنا شروع کیا ہے، مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے یہ کتابیں میری شخصیت کو ہی سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں، عظیم آدمی کون ہوتا ہے، لوگوں سے کیسا برتاؤ کرتا ہے، محفل میں کیا گفتگو کرتا ہے، اس کے اقوال کس قسم کے ہوتے ہیں، اس کی عادتیں کتنی عجیب ہوتی ہیں..... غرض عظیم شخص کی جو بھی خوبیاں ان کتابوں میں درج ہیں وہ پہلے سے ہی مجھ میں موجود ہیں ماسوائے ایک آدھ بات کےجس کا ذکر میں بعد میں کروں گا۔
اِن کتابوں کو پڑھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ عظیم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ خود کو عظیم کہیں بلکہ ہو سکے تو اپنا نام ہی عظیم رکھ لیں، لوگ آپ کو عظیم مان لیں گے۔ یہ کام شروع میں کچھ مشکل لگتا ہے اور بندے کو شرم محسوس ہوتی ہے لیکن تھوڑی سی ڈھٹائی یہاں catalyst کا کام کرے گی اور آپ کو یوں لگے گا جیسے آپ پیدائشی عظیم تھے، اس کے بعد پھر چل سو چل، اٹھتے بیٹھتے اپنی عظمتوں کے گُن گائیں، اپنی ہی شان میں قصیدے پڑھیں ،اپنے کارنامے بیان کریں، مگر یہ سب کچھ غیرمحسوس طریقے سےکریں ورنہ لوگ آپ کو پاگل بھی سمجھ سکتے ہیں۔ عظیم ہونے کا یہ تیر بہدف نسخہ ہے اور بطور لکھاری یہ کام میرے لئے نسبتا آسان بھی ہے اس لئے میں نے آج سے ہی اس پر عمل شروع کردیا ہے، یہ کالم اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ ان کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ عظیم آدمی عاجز اور انکسار پسند ہوتا ہے، میں نے اس پر کافی غور کیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ اصل میں اُسے عاجز اور منکسر المزاج پوز کرنا چاہئے، حقیقت میں عاجزی دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اپنے ہاں حقیقی عاجز بندوں کو عظیم نہیں بیوقوف سمجھا جاتا ہے۔ تیسری بات جو میں نے ان کتابوں میں تو نہیں پڑھی لیکن اپنے ہاں دیسی عظیم آدمیوں میں نوٹ کی ہے وہ ایک عجیب قسم کی شان بے نیازی ہے، اپنی گفتگو، رکھ رکھاؤ، برتاؤ اور لوگوں سے میل جول میں ایک غیر محسوس بے نیازی برتنی چاہیے۔ مثلاً کسی مجلس میں بیٹھے ہیں تو گفتگو سے لاتعلق نظر آنے کی کوشش کریں مگر حقیقت میں کان ادھر ہی لگے ہوں اور درمیان میں کہیں سگریٹ سلگاتے ہوئے ایک آدھ ایسا جملہ لڑھکا دیں جس میں کسی آفاقی سچائی کے بخیے ادھیڑے گئے ہوں اور اُس کے بعد دوبارہ اپنا چہرہ سپاٹ بنا کر یوں اکتاہٹ طاری کرلیں جیسے اِس قسم کے ڈیڑھ درجن اقوال تو آپ یونہی دن بھر میں ضائع کر دیتے ہیں، لوگ سمجھیں گے کہ اگر اکتائے ہوئے موڈ میں یہ شخص ایسا موتی پھینک سکتا ہے تو موڈ میں اس کی گفتگو کیا ہوگی!
میں معافی چاہتا ہوں کہ یہ کالم میں نے’’ عظیم انسانوں کی نشانیاں‘‘ کے موضوع پر نہیں لکھنا تھا بلکہ یہ بتلانا مقصود تھا کہ میں خود کتنا عظیم ہو چکا ہوں۔ دراصل مجھ پر عظمت کا یہ انکشاف حال ہی میں ہوا جب میں نے نوٹ کیا کہ میرے اردگرد تمام لوگ عظیم ہو چکے ہیں اور غالباً میں اکیلا شخص ہوں جسے لوگوں نے اب تک عظیم آدمی نہیں سمجھا۔ ایسے ہی ایک دیسی عظیم سے اگلے روز ملاقات ہوئی، چھوٹتے ہی فرمانے لگے کہ انہوں ساری زندگی کبھی جھوٹ نہیں بولا، کاروبار کیا مگر کبھی کسی کی پیمنٹ ایک گھنٹہ لیٹ نہیں کی اور دوسروں کو اپنی پیمنٹ کی یاد دہانی نہیں کروائی، اس کے باوجود ہمیشہ منافع ہی کمایا، دو بچے ہیں جن میں سے ایک آئن اسٹائن ہے اور دوسرا نیوٹن جبکہ بیوی مدر ٹریسا ہے، اپنا یہ حال ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں ایدھی کا دوسرا جنم ہوا ہے۔ میں نے یہ تمام گفتگو نہایت صبر اور سکون کے ساتھ سنی، اس کے بعد پوچھا کہ اپنی عظمت بیان کرنے کے علاوہ انہوں نے غریب خانے پر آنے کی زحمت کیسے کی تو جواب میں انہوں نے اپنے اُسی بیٹے کا سی وی نکال کر سامنے رکھ دیا جسے کچھ دیر پہلے انہوں نے آئن اسٹائن سے تشبیہہ دی تھی (واضح رہے کہ موصوف جھوٹ نہیں بولتے) اور فرمانے لگے کہ صاحبزادے نے کسی میڈیا ہاؤس میں ملازمت کے لئے انٹرویو دیا ہے سو وہاں سفارش کر دی جائے، ساتھ ہی بے نیازی سے یہ بھی کہہ دیا کہ بچے کے دماغ میں اینکر بننے کا سودا سمایا ہے حالانکہ میں نے تو بہت سمجھایا کہ اپنا کروڑوں کا کاروبار سنبھالو مگر ذہین بچوں کی یہ پرابلم تو بہرحال ہوتی ہے کہ خود سر ہوتے ہیں!
یہ ملاقات ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی، میں جو شش و پنج میں مبتلا تھا کہ اپنی عظمت کا باضابطہ اعلان کروں یا نہ کروں اس ملاقات کے بعد میں مخمصے سے باہر نکل آیا اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ غیرمحسوس طریقے سے دنیا کو سمجھا دیا جائے کہ میں بھی ایک عظیم انسان ہوں البتہ ایک چھوٹی سی الجھن نے میرے اس فیصلے میں رکاوٹ ڈال دی۔ شرو ع میں جن کتب کا میں نے حوالہ دیا تھا اُن میں یہ بھی لکھا تھا کہ عظیم یا بڑا آدمی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ نے زندگی میں کوئی کارنامہ بھی انجام دیا ہو، میں نے دماغ پر کافی زور ڈالا مگر مجھے کوئی ایسی بات یاد نہیں آئی جسے میں اپنے کارنامے کے طور پر پیش کرسکوں، یہ سوچ کر کچھ دیر کے لئے میں ڈپریشن میں چلا گیا لیکن ایک مرتبہ پھر دیسی عظیم آدمی بطور رول ماڈل میری نظروں کے سامنے آئے اور مجھے حوصلہ دیا کہ برخوردار اِس ملک میں خود کو عظیم ثابت کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ آپ نے خود کوئی کارنامہ انجام دیا ہو، تکنیک یہ ہے کہ جن بڑے آدمیوں نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہے آپ اُن کی کردارکشی کریں، لوگ آپ کو خود بخود عظیم سمجھنے لگیں گے۔ سو دوستو، آج سے میں نے بھی یہ مشن اپنالیا ہے، اب مجھے کوئی بھی ایسا شخص نظر آیا جس نے معاشرے میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو، زندگی میں کوئی ’’اسٹینڈ‘‘ لیا ہو، اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا ہو تو میں اُس کا ایسا کچا چٹھا کھول کر آپ کے سامنے رکھوں گا کہ آپ مجھے عظیم کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہو جائیں گے، بیباک ہونے کا تمغہ علیحدہ ملے گا۔ خدا میرا حامی و ناصر ہو!

.
تازہ ترین