• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے چند دنوں سے میں جب بھی ایم کیو ایم کے گرفتار کارکنوں کی عدالتوں میں آنیاں جانیاں دیکھتا ہوں تو مجھے کوفہ یاد آ جاتا ہے کیونکہ ان گرفتار کارکنوں کا حال اور مزاج کوفی ہے۔ جب یہ ایک مظاہرے میں تھے تو اپنے ’’بھائی‘‘ کا خطاب سن رہے تھے تو جو وہ یاوا گوئی کرتا تھا اس کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے مگراب جب گرفتار ہو کر پہلا ’’سہ روزہ‘‘ لگاہے تو عدالتوں میں آتے او ر جاتے وقت ان کی زبانوں پر پاکستان زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے ہوتے ہیں۔ وہ یہ بات بھول ہی گئے ہیں کہ انہوں نے چندروز پہلے پاکستان مخالف نعرے لگائے تھے۔ ان کوفی مزاج کارکنوں اور ان سیاستدانوں میں کوئی فرق نہیں جو ہر چڑھتے سورج کی پوجا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ان کارکنوں پر ’’ٹھاکر پیر‘‘ نے ایسا دم کیا ہے کہ اب یہ گرفتار کارکن پاکستان، پاک فوج کے ساتھ ساتھ رینجرز کے حق میں بھی نعرے بلند کرتے ہیں۔ یہی ان کی حق پرستی ہے۔
کراچی میں میڈیا ہائوسز پر حملے ہوئے۔ پاکستان کی سالمیت پر حملے ہوئے۔ یہ سب قابل مذمت ہے مگر اس سے بھی زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے وزرا جو صبح سے شام ’’سچ‘‘ بول بول کر نہیں تھکتے، وہ تمام وزرا اس اہم مرحلے پر خاموش رہے۔ صرف چوہدری نثار علی خان نے کراچی جا کر چند اہم فیصلے کئے۔ اب جب ایم کیو ایم کے غیرقانونی دفاتر گرائے جارہے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کہاں تھی؟ اس کو اس سے پہلے یہ دفاتر کیوں نظر نہیں آتے تھے؟ آخر ان دفاتر کو بجلی بھی مہیا کی جاتی تھی، گیس اور پانی بھی۔ پتہ نہیں ان دفاتر میں آنے والے بجلی، گیس اور پانی کے بل کس کے نام پر آتے تھے، آخر حکومت کہاں سوئی ہوئی تھی جسے آج تک ان غیرقانونی دفاتر کا پتہ نہیں چل سکا تھا حالانکہ حالیہ واقعات سے پہلے پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے حکمرانوں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ ’’ایم کیو ایم کے ’’را‘‘ سے روابط ہیں، یہ لوگ بھتہ لیتے ہیں، لوگوں کو لوٹتے ہیں، بدامنی پھیلاتے ہیں، آگ کا کھیل کھیلتے ہیں.....‘‘ ان تمام باتوں پر توجہ دلوانے کے باوجود حکمرانوں نے کوئی توجہ نہ دی اور بالآخر پھر وہ دن آگیا جب کالی زبانیں باہر آگئیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے مصطفیٰ کمال نے کراچی اور حیدرآباد میں لوگوں کو دعوت دی تھی کہ وہ پاکستان کی محبت میں ایم کیو ایم کو چھوڑ کر پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہو جائیں کیونکہ ایک شخص کی وجہ سے سارے اردو بولنے ولے بدنام ہو رہے ہیں، سارے اردو بولنے والوں کی نسلیں برباد ہو رہی ہیں کیونکہ ایک شخص نے لوگوں کو غلط راستے پر لگا دیا ہے۔ اس دعوت کے بعد اردو بولنے والوں کو چاہئے تھا کہ وہ ایک بدحواس شخص اور مصطفیٰ کمال میں موازنہ کرتے مگر لوگ کہاں موازنہ کرتے ہیں۔ لوگ سوچتے بھی نہیں حالانکہ جمہوریت میں یہی ہوتا ہے کہ امیدواروں کو دیکھا جاتا ہے کہ کون سا امیدوار بہتر ہے۔
کل پنجاب میں چند حلقوں میں ضمنی الیکشن ہو رہا ہے میں نے سوچا کہ ان حلقوں میں جا کر جائزہ لوں پھر وقت کی قلت آڑھے آئی اور میں صرف جہلم تک جاسکا۔ جہلم کا حلقہ این اے 63 جو کہ جہلم شہر، پنڈ دادنخان اور کھیوڑہ پر مشتمل ہے، میں اس حلقے کا جائزہ لینے کے لئے چلا گیا۔ میں نے وہاں کے سیاسی لوگوں کی بجائے عام آدمی سے پوچھا ایک آدمی روپڑا اور پھرروتے روتے کہنےلگا کہ..... ’’ہم پچھلے تیس سالوں سے اقبال مہدی کو ووٹ دے رہے ہیں۔ ہمارے علاقے کی تقدیر نہیں بدل سکتی جب بارش ہوتی ہے تو ہمارے لئے اپنے گھروں میں جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ قریبی علاقوں میں جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمیں ووٹوں کے بدلے میں سوائے تکبر کے کچھ نہیں ملتا۔ اب اس کا بیٹا کھڑا ہے۔ اسے بھی غرور سے بھری باتوں کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ میں تو اللہ کا بندہ ہوں،اب میں صرف اور صرف ایسے امیدوار کو ووٹ دو ںگا جو عاجز ہو، خدا کے بندوں سے پیار کرتا ہو، ہماری قسمت کہ وہ ہمارے حلقے میں آگیا ہے۔ اب میں مطلوب مہدی کی بجائے چوہدری فواد حسین کو ووٹ دوں گا۔ ہمارے گائوں کے لوگوں کی اکثریت تکبر کے خلاف جمع ہوچکی ہے۔ ہمارے ساتھ پنجاب کے حکمرانوں نے بھی مذاق کیا ہے۔ ایک پل برساتی نالے پر بنایا جو بناتے ہی گر پڑا۔ اس پر ن لیگ کے عہدیدار کہنے لگے کہ دراصل پل ہوا سے اڑ گیا ہے۔ میرا سوال ہے کہ آپ ایسے پل تو بنا دیتے جو کم از کم ہوا سے تو نہ اڑتے.....‘‘
میں اس سادہ دیہاتی آدمی کی باتیں سن کر ایک صوفی درویش کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا کہ کیا حال ہے الیکشن کا، میرے اور صوفی صاحب کے درمیان ایک مکالمہ ہوا جو پیش خدمت ہے۔
سوال:الیکشن میں کیا ہوگا؟
صوفی صاحب :لوگ سوچتے نہیں، موازنہ نہیں کرتے۔
سوال:وہ کیسے؟
صوفی صاحب:مثلاً اب ہمارے حلقے میں ایک امیدوار پڑھا لکھا، سمجھدار، نرمی سے گفتگو کرنے والا، گورنمنٹ کالج لاہور سے پڑھا ہوا، سیاست، حالات ِ حاضرہ اور بین الاقوامی امور پر دسترس رکھنے والا ہے جبکہ دوسرا روایتی جاگیردار ہے۔ لوگوں کو موازنہ کرنا چاہئے کہ بہتر کون ہے مگر لوگ سوچتے نہیں۔
سوال:کون بہتر ہے، کون پڑھا لکھا ہے؟
صوفی صاحب:دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں کے لیڈروں میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک کا لیڈر ملک کا خدمتگار ہے اور دوسرے کا لیڈر پاناما سکینڈل کا حصہ ہے..... ‘‘(بقیہ اگلے صفحہ پر) 
صوفی صاحب سے اجازت چاہی تو انہوں نے کہا کہ اپنا کوئی شعر سنائو۔ میں نے عرض کیا کہ؎
بستی میں یہ کس نے درد بکھیرے تھے
روشن دن تھا، چاروں سمت اندھیرے تھے


.
تازہ ترین