’’مارشل لاء کیلئے کوئی جگہ نہیں رہی‘‘....یہ میں نہیں کہہ رہا۔ یہ جملہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی زبان سے نکلا اور دستور کی گلی میں گم ہوگیا۔ دستور کی یہ گلی پارلیمنٹ ہائوس کے ایک کونے میں بنائی گئی جس کی دیواروںپر کچھ تاریخی دستاویزات، تصاویر اور خاکوں کی مدد سے پاکستان کی دستوری تاریخ کو سجایا گیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے گزشتہ ہفتے کچھ صحافیوں کو یہ’’گلی دستور‘‘ دکھانے کیلئے پارلیمنٹ ہائوس مدعو کیا تو عاصمہ شیرازی نے اس گلی میں پہلا قدم رکھتے ہی اعتراض کیا کہ اس کا نام’’کوچۂ دستور‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ جناب نصرت جاوید نے فوراً بزرگانہ انداز میں تائید فرمادی۔ چیئرمین سینیٹ بتارہے تھے کہ فائن آرٹس کے کچھ طلبہ اور اساتذہ کی مدد سے پاکستان کی دستوری تاریخ کو سیاہ ادوار سمیت پارلیمنٹ ہائوس کی اس دیوار پر محفوظ کردیا گیا ہے کیونکہ نصابی کتب میں یہ تاریخ صحیح طور پر بیان نہیں کی گئی۔ اس دیوار پر1956ءکا آئین اور پھر 1958ءکا مارشل لاء ، 1962ءکا آئین پھر1969ء کا مارشل لاء، 1973ء کا آئین پھر1977کا مارشل لاء اور پھر اس مارشل لاء میں جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد کو بھی نمایاں کیا گیا۔ ایک تصویر میں ٹکٹکی پر بندھے شخص کو کوڑے مارے جارہے ہیں تو دوسری تصویر میں حبیب جالب، احمد فراز اور جون ایلیا کی مزاحمتی شاعری کا عکس بھی نظر آتا ہے۔ پھر1999ءکی فوجی بغاوت کا ذکر آتا ہے، پھر18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا ذکر آتا ہے اور اس کے آگے گلی بند ہوجاتی ہے۔ میں نے چیئرمین سینیٹ سے پوچھا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ آئندہ کوئی مارشل لاء نہیں آئے گا۔ وہ مسکرائے اور بند گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مارشل لاء کیلئے کوئی جگہ نہیں رہی۔ وہاں سے واپسی پر ایک تصویر نے مجھے روک لیا۔ یہ1983ءمیں شاہراہ قائد اعظم لاہور پر خواتین کے مظاہرے کی تصویر تھی جس میں جالب صاحب میرے سامنے پٹے تھے۔ اس مظاہرے میں ’’مارشل لاء ختم کرو‘‘ کے نعرے لگائے گئے تھے۔ یہ نعرے میرے کانوں میں گونجنے لگے۔ میں یاد کرنے لگا کہ کچھ مہینے پہلے تک رضا ربانی کو جمہوری نظام کی بساط لپیٹے جانے کا خطرہ اپنے سامنے کھڑا نظر آرہا تھا اور انہوں نے بار بار قوم کو اس خطرے سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر1973ءکے آئین کو پامال کیا گیا تو خدا نخواستہ وفاق قائم نہیں رہے گا لیکن پچھلے کچھ دنوں سے رضا ربانی بڑے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔ شاید ان کے دوست چوہدری اعتزاز احسن نے انہیں یقین دلادیا ہے کہ مارشل لاء کا کوئی خطرہ نہیں البتہ کچھ لوگ مارشل لاء کے خطرے کا شور مچا کر احتساب سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ2012ء میں ایک وزیر اعظم ہوا کرتا تھا جس کا نام سید یوسف رضا گیلانی تھا۔ اس وزیر اعظم کو نااہل قرار دلوانے کیلئے مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور سپریم کورٹ نے گیلانی صاحب کو نااہل قرار دے دیا ،حالانکہ اس وقت کی ا سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے وزیر اعظم کے حق میں رولنگ دی تھی، اگر 2012ءمیں مارشل لاء کے بغیر سیاسی تبدیلی آسکتی ہے تو آج کیوں نہیں؟ ہوسکتا ہے یہ تبدیلی ستمبر یا اکتوبر میں نہ آئے لیکن نومبر میں بہت سی تبدیلیاں آنے کا امکان ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ پاکستان میں مارشل لاء اپنی اصل شکل میں موجود ہو یا نہ ہو لیکن یہ کسی دوسری شکل میں ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ مارشل لاء لگائے بغیر بھی مارشل لاء چلتا رہتا ہے۔ میری اس گستاخی کا کوئی غلط مطلب نہ لیجئے۔ میں یہ عرض کررہا ہوں کہ وطن عزیز میں بظاہر فوجی مارشل لاء نظر نہیں آتا لیکن سیاسی جماعتوں اور سویلین حکومت کے اندر مارشل لاء جیسے حالات ہیں اور بند دروازوں کے پیچھے سے ’’مارشل لاءختم کرو‘‘ کی کمزور آوازیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔
یہ عاجز بار بار یہ کہتا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین مارشل لاء سے اچھی ہوتی ہے لیکن جمہوریت کی حمایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سیاسی حکمرانوں کے مارشل لائی رویوں پر خاموشی اختیار کرلیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے حال ہی میں جو رویہ اختیار کیا ہے اس پر تنقید کرنے والوں پر جمہوریت دشمنی کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ یہ الزامات سن کر مجھے جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت یاد آگیا ، جب 2004ءمیں دہلی میں قیام پاکستان کے خلاف الطاف حسین کی تقریر پر ہم نے سوالات اٹھانے شروع کئے تو الطاف حسین’’محب وطن جرنیلوں‘‘ کے اتحادی تھے اس لئے ہم شر پسند قرار پائے۔ پھر اسی محب وطن جرنیل نے کئی سیاستدانوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ان پر قائم کرپشن کے مقدمات ختم کئے اور اپنے اس عمل کو’’این آر او‘‘ کا نام دیا تو ہم نے شور مچایا یہ کیا ہورہا ہے۔ این آر او کی آڑ میں ایم کیو ایم کے ایسے کارکن بھی رہا ہوگئے جن پر قتل اور دہشت گردی کے الزامات تھے۔ کرپشن اور دہشت گردی کے اس کھلے تعلق کو این آر او کے ذریعہ مسترد کردیا گیا اور جس نے بھی این آر او کو غلط کہا وہ قومی مفاہمت کا دشمن قرار پایا۔ پھر مشرف نے بیک ڈور چینل سے کشمیر پر سرنڈر کرنا شروع کیا۔ اس سرنڈر کی حریت کانفرنس کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے مخالفت کی تو مشرف نے گیلانی صاحب کو پاگل بڈھا قرار دے دیا۔ ہم پاگل بڈھے کے ساتھ کھڑے ہوگئے تو مشرف کے ساتھیوں نے ہمیں پاکستان کا دشمن قرار دے دیا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ کل تک جو مشرف کے پیچھے کھڑے ہو کر ہمیں پاکستان کا دشمن کہتے تھے آج وہی کچھ چہرے نواز شریف کے آگے کھڑے ہو کر حکومت کے انداز حکمرانی پر سوالات اٹھانے والوں کو جمہوریت کا دشمن قرار دے رہے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ان نام نہاد جمہوریت پسندوں نے آئین کی دفعہ چھ کے خلاف ورزی کے ملزم پرویز مشرف کو قوم سے غلط بیانی کرکے ملک سے فرار کرایا اور یہ ثابت کیا کہ مارشل لاء کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے لیکن جب کوئی دوسرا یہ کہہ دے کہ آئین و قانون کا احترام کرو تو ن لیگ میں گھس بیٹھنے والے مشرف کے ساتھی چیخنے چنگھاڑنے لگتے ہیں جب یہ چیختے ہیں تو نواز شریف کے پرانے ساتھیوں کو خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ نئے آنے والے آگے نہ نکل جائیں لہٰذا وہ اپنی برتری قائم کرنے کیلئے اور زیادہ زور سے چیختے ہیں اور کبھی کبھی یہ گمان گزرتا ہے کہ ن لیگ کے کچھ رہنمائوں کو ہر وقت جن بھوت نظر آتے ہیں اور وہ چیخ چیخ کر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ ن لیگ کے کئی رہنمائوں کا خیال ہے کہ اصل میں عمران خان ایک نفسیاتی مریض ہے جو ہر وقت وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھتا ہے لیکن عمران خان اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود حکومت کیلئے ایک ڈرائونا خواب بنے ہوئے ہیں۔ ان کی اصل طاقت حکومت کی غلطیاں ہیں، بدحواسیاں اور جلد بازی ہے۔ عمران خان وزیر اعظم بنیں یا نہ بنیں لیکن ان کا انداز سیاست دیکھ کر یہ مصرع یاد ا ٓتا ہے؎
’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘
یہ ناچیز بہت سی باتوں کھل کر نہیں لکھ سکتا کیونکہ اندر ہی اندر مجھے بھی کسی نہ کسی مارشل لاءکا سامنا رہتا ہے۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ جمہوریت کی ا صل طاقت آئین و قانون کی بالا دستی اور شفافیت ہوتی ہے جو جمہوری حکومتیں آئین و قانون کو اپنے گھر کی لونڈی بنانے کی کوشش کریں وہ خود جمہوریت کیلئے خطرہ بن جاتی ہیں۔ خدانخواستہ کوئی جمہوریت اور آئین پر حملہ آور ہوا تو آپ ہمیں ایک دفعہ پھر حملہ آوروں سے لڑتے ہوئے دیکھیں گے لیکن ہم ایسی جماعتوں کیلئے نہیں لڑنا چاہتے جو اقتدار میں آئیں تو ان کے اندر سے جمہوریت غائب ہوجاتی ہے۔
جو لوگ آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کے ملزم کو ملک سے فرار کرادیں اور ملزم کے ساتھیوں کو اپنے دائیں بائیں کھڑا کرکے ہمیں جمہوریت اور آئین کا لیکچر دیں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ عمران خان کو بھگتیں ۔ جمہوریت پسندی کا تقاضا صرف یہ نہیں کہ ہم فوجی مارشل لائوں کے خلاف مزاحمت کریں۔ جمہوریت پسندی یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ آئین سے غداری کے ملزم کو ملک سے فرار کرانے والوں سے جواب طلبی کی جائے، تمام بڑی سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنی جماعتوں کے اندر نافذ خاندانی بادشاہتیں اور مارشل لاء ختم کریں، جماعتوں کے ا ندر صاف و شفاف انتخابات کرائیں بصورت دیگر پولٹیکل پارٹیز ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں الیکشن کمیشن ان جماعتوں کے خلاف کارروائی کرے اور ان جماعتوں کے اندر مارشل لاء ختم کرے۔
.