• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی رائے عامہ کی اکثریت انتقام کی آگ میں جل رہی ہے اور اپنی رائے عامہ اور ووٹ بینک کو مطمئن کرنے کے لئے بھارتی وزیر اعظم مودی بھی دھمکیاں دے رہے ہیں ،بڑھکیں مارہے ہیں اور انتقام لینے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔ مودی کی مسلمان اور پاکستان سے نفرت تو ضرب المثل بن چکی ہے لیکن اب اوڑی کی فوجی بیس پر حملے نے اسے انتقام کا موقع فراہم کردیا ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ مودی اس موقع کو ضائع نہیں کرے گا۔ہندوستانی میڈیا اور انتہا پسند رائے عامہ ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے کیونکہ انہیں اپنے سپر پاور ہونے کا زعم ہے، اپنی معاشی اور ملٹری قوت پہ ضرورت سے زیادہ اعتماد ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکی دوستی پر ناز ہے۔ نتیجے کے طور پر ہندوستان میں متوازن، سنجیدہ اور عقل و فہم کی گفتگو کرنے والی چند آوازیں دب کر رہ گئی ہیں ا ور ان کی طرف کوئی بھی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ بلاشبہ پاکستانی وزیر اعظم کا اقوام متحدہ میں خطاب اچھا تھا، انہوں نے برہان وانی کو ہیرو آف تحریک آزادی کا سمبل بنا کر اور کشمیریوں کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی مظالم سے پردہ اٹھا کر قوم کے جذبات کی ترجمانی کی لیکن وقت کی قلت کے باوجود انہیں پاکستان میں بھارتی مداخلت کا ذکر کرنا چاہئے تھا اور مودی کا ڈھاکہ میں پاکستان توڑنے پر فخر کو بھارتی عزائم اور پالیسی کا حصہ قرار دینا چاہئے تھا۔ بھارت کی بلوچستان میں مداخلت، سازش اور پاکستان کے اندر دہشت گر دی کروانے کا ذکر بھی کرنا چاہئے تھا۔رہا اوڑی پر حملہ تو اس کی تحقیق یو این او آبزرورز اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں سے کروانے کی پیشکش کی جاسکتی ہے۔ بھارت آج تک سرحد عبور کرکے حملہ آوروں کے داخلے کا ثبوت نہیں دے سکا اور نہ ہی ایسی سرگرمیاں ہماری حکومتی پالیسی کا حصہ ہیں بلکہ پاکستان نے تو کچھ عرصہ قبل سرحد عبور کرنے والے دہشت گردوں کی بروقت ہندوستان کو اطلاع دے کر انہیں جانی و مالی نقصان سے بچالیا تھا۔ اقوام متحدہ میں یہ کریڈٹ لینا پاکستان کے امیج کو بہتر بناتا اور عالمی رائے عامہ کو احساس ہوتا کہ ہندوستان کو انٹیلی جنس کی بنیاد پر دہشت گردی کی پیشگی اطلاع دینے والا پاکستان اوڑی کے حملے میں ملوث نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان کا یہ الزام کہ حملہ آوروں سے میڈ ان پاکستان یعنی پاکستان ساختہ اسلحہ برآمد ہوا ہے بچگانہ بات ہے کیونکہ سازش کرنے والا کبھی بھی ثبوت کے سامان مہیا نہیں کرتا۔ کسی بھی ملک کا بنا ہوا اسلحہ حاصل کرنا آسان کام ہے تو پھر پاکستان ساختہ اسلحہ دینے کی حماقت کیوں کی جاتی۔ اصل ثبوت یہ ہوگا کہ حملہ آوروں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرکے ان کی پاکستانی شہریت ثابت کی جائے اور پھر پاکستان سے تحقیق کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ نان ا سٹیٹ ایکٹرز کے ملوث ہونے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔
ہندوستان میں جنگی انتقام اور خاکم بدہن پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھڑکتی آگ نے ہندوستانی اقلیتوں کو بھی اپنے دفاع پر مجبور کردیا ہے۔ ہندوستان سے محبت اور وفا کا ثبوت دینے کے لئے اورحب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کے لئے ہندوستانی اقلیتیں بھی پاکستان نفرت مہم میں شامل ہوگئی ہیں اور پاکستان سے انتقام کا مطالبہ شدومد سے کررہی ہیں۔ کل تک ہندوستان کے اندر سے بھانت بھانت کی آوازیں سنائی دیتی تھیں، اب وہ آوازیں ہندو انتہا پرستی کے شور میں گم ہو کر احتجاج اور انتقام کا حصہ بن گئی ہیں۔ اقلیت کی نفسیات بھی قابل فہم ہوتی ہے۔ احساس تحفظ سے محروم اقلیت کو ہر وقت حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس پر کسی غیر سے ہمدردی کا الزام نہ لگے۔ اس لئے مجھے یہ خبر پڑھ کر بالکل حیرت نہیں ہوئی کہ ہندوستان میں ایک مسلمان منتخب رکن اسمبلی کی قیادت میں علماء اور کچھ مسلمان حضرات نے مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ محض باتیں نہ کریں بلکہ عمل کریں ا ور پاکستان کو سبق سکھائیں۔ ہندوستان کے ایک معتبر عالم اور امام مسجد نے تو یہ تک کہا ہے کہ مودی پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹادے۔ میں اسے اقلیت کی نفسیات کا شاخسانہ سمجھتا ہوں۔ مسلمان چار گنا بڑی ہندو اکثریت کے ردعمل سے خوفزدہ ہو کر حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے پر مجبور ہیں اور برملا ہندو انتہا پسندوں کی مانند حرکتیں کررہے ہیں۔ ویسے بھی ہر شہری اپنے ملک کا وفادار ہوتا ہے۔ ہندوستان کی فوج، بیوروکریسی اور سیاست میں مسلمان بھی ہیں اور سکھ بھی اور وہ ٹی وی چینلوں پر ہندوستان سے وفاداری جتانے کے لئے جنگ و جدل کی صورت میں اپنے وطن کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے عزم کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، ا لبتہ مقبوضہ کشمیر بغاوت سے ابل رہا ہے اور آزادی کے لئے بے مثال قربانیاں دے رہا ہے۔ ان کی پاکستان سے محبت ہماری تاریخ کی روشن ترین علامت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں دفنانا، ہندوستانی فوج کی گولیوں کے جواب میں پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرنا اور احتجاجی جلوسوں میں پاکستانی پرچم لہرانا ان کی پاکستان سے اٹل محبت کا ثبوت ہے اور یہ وہ قرض ہے جو ہر پاکستانی پر واجب الادا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے وہ قومی قرض کسی حد تک ادا کیا ہے لیکن مکمل طور پر نہیں، میرا مطلب ہرگز جنگ نہیں کیونکہ جنگ محض تباہی ہے، مسائل کا حل ہرگز نہیں۔ ہندوستان جنگ مسلط کرنے کے لئے اشتعال انگیزی کرے گا لیکن تدبر کا تقاضا ہے کہ ہندوستان کو اپنے عزائم میں ناکام بنانے کے لئے ا شتعال سے بچا جائے، نفرت انگیز اور جنگی بڑھکوں اور دھمکیوں کا جواب سنجیدہ اور مدبرانہ انداز میں دیا جائے۔ وزیر اعظم کا مدبرانہ انداز نہایت مناسب ہے لیکن وقت کی اہم ترین ضرورت دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ ہندوستان جنگی عزائم رکھتا ہے، ہندوستان کشمیر کی تحریک آزادی سے گھبرا کر اور اسے دبانے کے لئے پاکستان سے زور آزما ئی کرنا چاہتا ہے، اوڑی پر حملے میں نہ پاکستان ملوث تھا اور نہ ہی ہندوستان کے اندر مداخلت پاکستانی حکومت کی پالیسی ہے۔ خود ہندوستانی حکومت بھی مفروضوں کی بنیاد پر پاکستان کو موردالزام ٹھہرا رہی ہے۔ ہندوستان نے نہ صرف1971میں پاکستان توڑا بلکہ اب بلوچستان کی جلا وطن حکومت قائم کرکے عالمی اسٹیج پر پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش کررہاہے۔ ہندوستان پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں اور دہشت گردی کے ذریعے خون بہاتا رہا ہے جس کی تصدیق کلبھوشن کرچکا ہے۔ عالمی قوتوں، دوست ممالک اور نیوٹرل ممالک میں اہل افراد پر مشتمل وفود بھیجنے اور عالمی پریس میں اپنا مقدمہ موثر انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ امریکی تھنک ٹینکوں اور پالیسی سازوں کو اپنا نقطہ نظر اور مقدمہ ثبوتوں کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے، پھر امید کی جانی چاہئے کہ اگر امریکہ، روس، برطانیہ، چین اور موثر اسلامی ممالک ہندوستانی حکومت پر دبائو ڈالیں تو بڑی جنگ کا خطرہ ٹل جائے گا اور وقت کے ساتھ ہندوستان کی انتہا پسندی اور عوامی ابال بھی ٹھنڈا ہوجائے گا۔ پاکستان کو بہرحال کسی انتقامی کارروائی سے گریز کرنا چاہئے، اشتعال انگزی سے پرہیز کرنا چاہئے اور مدبرانہ رویہ قائم رکھنا چاہئے ۔موزوں وقت پر بیک ڈور ڈپلومیسی کے چینل استعمال کرنا وقت کی ضرورت ہے لیکن ہر صورت کشمیریوں کی جدوجہد کی سیاسی حمایت اور اہم ممالک تک اپنا نقطہ نظر پہنچانا اور عالمی میڈیا میں موجودہ صورتحال کو اجاگر کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ بظاہر جنگ کے شعلے بھڑ ک رہے ہیں اگر پاکستان اپنے تدبر سے انہیں ٹھنڈا کر بھی دے تو ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ مودی بہرحال انتقام لے گا چاہے سرجیکل ا سٹرائیک کے ذریعے یا پاکستان کے اندر دہشت گردی کروا کر اور خون بہا کر......یہ سب اندازے ہیں غائب کا علم صرف اللہ پاک کے پاس ہے لیکن بظاہر مودی کے تیور خطرناک ہیں۔


.
تازہ ترین