• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگی محاذ بغیر کھلے، ہم جیت چکے۔ عسکری محاذ پر بھارت ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ خطرات ٹلے نہیں بڑھ گئے کہ بھارت اقتصادی طور پر ہمیں برباد کرنے کی ٹھان چکا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف، مودی، سشما سوراج کی تقاریر سے لیکر عمران خان کے ستمبر مارچ پاسٹ یاٹیکسلا میں تحریک انصاف کی منہ بولتی شکست تک، موضوعات کئی اہم، ایک بھی نظر اندازکرنا، ناممکن کہ باہمی پیوست ہیں۔ جب کہنے کو کچھ نہ ہو، ذلت، خواری، رسوائی منہ چڑھا رہی ہو، تو جھوٹ واحدگزارہ الائونس رہتا ہے۔ اتنا بولو کہ خود، لواحقین اوراپنے ماننے والے کم ازکم وقتی طور پر مطمئن رہیں۔ ’’چونکہ پاکستان نے اگر ایک دانت توڑا ہے تو بدلے میں دشمن کا پورا جبڑا توڑنا ہوگا‘‘،یہ وہ آراستہ، پیراستہ پیرائیہ وبیانیہ ہے، جس کا غل غپاڑہ پچھلے دو ہفتے سے بھارتی پارلیمان، انکی عسکری قیادت، اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا پکار پکار کر جاری کرتے رہے۔ بلند بانگ گونج ایسی کرخت، قبیح، کریہہ، شرمناک، نازیبا کہ دماغ مائوف کرتی رہی۔ لگتا تھا ایٹمی جنگ لب بام، منڈیر تک پہنچ چکی ہے۔ پشتے ٹوٹنے کو، کشتے کے پشتے لگنے کو، سب کچھ بھسم ہونے کو۔ بعدازاں رونما ہونے والے وقت (Day after) کی تصویر کشی عام تھی۔ خوفناک نقشہ بن رہا تھا۔بھارت عملاً جنگ نمبر3کا اعلان کربھی چکا تھا۔ نتائج کی اندہوناکیوں سے بے پروا ئی دیدنی تھی۔ اعلامیہ پر اعلامیہ جاری ہو رہا تھا۔ پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے، پاکستان تنہائی کا شکارہے، بلوچستان آزادی مانگ رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ خود ساختہ اوڑی حملہ بجائے شرمندہ رکھتا، کمزوریوں اور دوغلے پن پر غورکیا جاتا۔ غصہ، بدلہ، جنون ایک سونامی کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ تحریک آزادی کشمیر نے ہلکان کرنا ہی تھا۔
اوڑی واقعہ اپنی نوعیت کا انوکھاکہ کئی حفاظتی حصاروں بیچ، (شنید کہ) لیزر پروٹیکشن بیمز موجود،جہاں چڑیا کا پر مارنا محال بلکہ ناقابل برداشت تھا۔وہاں بریگیڈ ہیڈ کوارٹر جو انتہائی مہلک گولہ بارود، اسلحہ سے لیس بھارتی فوج جارحیت کے خلاف تادیبی کاروائی کے لیے ہمہ وقت تیار، بلکہ جارحیت کے لیے بھی کل وقتی مستعدوموجود۔ ایسے میں 4نوجوان حفاظتی حصاروںکو نیست ونابود، رکاوٹیں ملیامیٹ، پورے بریگیڈ ہیڈکوارٹر کو پامال کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ایسا اندوہناک واقعہ بہ آسانی کیسے ہوا؟۔ ننانوے فیصد امکان( پچھلے تمام ایسے سانحات گواہ)، واقعہ بھارت کی اپنی کارستانی ہی ہوگی۔ وجہ صاف ظاہر کہ کشمیر کے معروضی حالات اور زمینی مجبوریاں بھارت کے قابو سے باہر ہیں۔ بفرض محال، مفروضہ مان بھی لیا جائے کہ پاکستان کی کارستانی ہے۔ ذرا سوچیے، اگر پاکستانی تربیت یافتہ چار نوجوان اوڑی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر داخل ہوکر تربیت یافتہ فوج کو اڑانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ایسی صورت میںبھارت کو اپنی عسکری قابلیت کی چارپائی کے نیچے ’’ڈانگ‘‘ پھیرنی ہوگی۔شعلے فلم یاد آگئی، ’’کتنے آدمی تھے‘‘؟ جواب! جنرل صاحب چار تھے‘‘۔ ’’تم کتنے تھے ؟‘‘، ’’جنرل صاحب! پورا بریگیڈ اورسب کا صفایا کر گئے‘‘۔ بھارت کی عسکری طاقت کے لیے مقام عبرت بلکہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
ایک بلا کا نام ہے،’’ وقت‘‘اور دوسری چیز کا نام’’ لہر‘‘ ہے (Time and Tide)، دونوں بھارت کی مخالفت میں ہیں۔عالمی جیوپولیٹیکل صورت حال نے بھارتی وقت کے انتخاب کوبے وقعت بنا کر رکھ دیا۔ جبکہ تحریک آزادی کشمیر کی لہر نے الگ سے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ وقت امریکہ کے قابو سے باہر ہوچکا، بھارت کس باغ کی مولی ہے۔ امریکی، چشم تصور میں 21ویں صدی اپنے تابع دیکھ رہے تھے۔ 1989میں پروجیکٹ فاردی نیو امریکن سنچری (PNAC) ٹائپ کئی ادارے تشکیل پاچکے۔ مقصد امریکی مطلق العنانی کو ترتیب واستحکام دینا تھا۔حالات کا کیسا پلٹاکہ مشرق ابھررہا ہے جبکہ مغرب غروب ہونے کو۔ اکیسویں صدی امریکہ کی مطیع وفرماں ہوئے بغیر ایشیائی طاقتوں (چین وروس) سے گٹھ جوڑ کر بیٹھی ہے۔ 21ویں صدی، چین کی صدی بننے جا رہی ہے۔ منطقی نتیجہ، خیر سے آج وقت اور لہر پاکستان اور آزادی کشمیر کے حق میں کھڑا ہو چکا۔
بطل حریت، شہید آزادی برہان مظفر وانی کی شہادت چارسو، دیپ جلا چکی، چراغ سے چراغ روشن ہو رہے ہیں۔ جنازے پر لاکھوں کا اجتماع چکا چوند کر گیا۔ بھارت کے تیارکردہ کتنے دہشت گرد پاک فوج نے مارے، جنازہ کیا ہوتا، قبر نصیب نہ ہوئی۔ مودی کا تحریک آزادی کشمیر سے نظریں چرا کر، مظفر وانی کا مقابلہ بھارتی ساختہ دہشت گردوں سے کرنا، خاک چھاننابلکہ خاک چاٹنا ہے۔ برہان کے والد مظفر وانی کا بھارتی ٹی وی انٹرویو ہی کافی ہے، ’’تاریخ میرے بیٹے کا درجہ ومقام بھگت سنگھ سے اوپر رکھے گی۔ کشمیر، بعدآزادی (ان شاء اللہ) صدیوں مرے بیٹے کویادرکھا جائے گا‘‘۔ جی ہاں! وہی بھگت، جو غلام ہندوستان میں انگریز سرکار کیخلاف آزادی کی جنگ میں مارا گیا۔ جی !بالکل وہی بھگت، جس کا درجہ بھارت میںگاندھی جی کے برابر رکھا گیا کہ جنگ آزادی کا ہیرو تھا۔ تحریک آزادی کشمیر کے ہمارے ہیرو نے بھارت پر بدحواسی اورکپکپاہٹ طاری کرنا ہی تھی۔ بھارتی منصوبہ سازوں کی عجب سوچ بچار، پاکستان اور دنیا کی توجہ کشمیر سے ہٹانے کی عجیب منطق وتدبیر ڈھونڈ نکالی۔
خیال اغلب کہ پہلے ہی سے پاکستان پر الزامات اور دشنام طرازی کی بوچھار کر دوتاکہ پاکستان جواب الجواب میں الجھ جائے۔اقوام متحدہ میں پاکستان، ردعمل میں مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کی بجائے بھارت کو بر ابھلا کہنے میں الجھ جائے۔ علاوہ ازیں اوڑی واقعہ بھی کشمیر سے توجہ ہٹاکر پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرجائے گا۔پاکستان بین الاقوامی تنہا ئی کا شکار بھی ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں،ایسا بھارتی یقین بھی محکم رہا کہ وزیراعظم پاکستان اور ان کی ٹیم دہشت گردی کو موضوع بنا کردفاعی اندازاورTug of War میں پھنس جائیں گے۔ تقریر میں الزامات اور مسئلہ کشمیر کو خاطر خواہ وقت نہ مل پائے گا۔ آفریں،ہماری سیاسی، عسکری اور سفارتی دماغوں پر، جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ بھارتی چالیں ناکام بنا دیں۔ اقوام متحدہ میں بہترین مواد پیش کیاگیا۔ وزیراعظم کی ادائیگی میں متانت، ٹھہرائو اور سنجیدگی نے تقریر کو مزیدچار چاند لگا دئیے۔ تقریر کو سوبٹہ سو نمبر دینے ہوں گے۔ بالمقابل سشما سوراج کی تقریر بیت الحزن سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ رونادھونا، جھوٹ، جنوں، جذبات سب بے اثر رہے۔ سشما کی تقریر جھوٹ کا پلندہ تھی۔ ایک حصہ سچ کے قریب رہتا اگر وہ اپنے تمام پڑوسی ممالک چین، برما، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا، پاکستان، کشمیر میں پچھلے 70سال میں، مختلف مواقع پر ہونے والی دہشت گردی میں اس ملک کا نام بتاجاتیں جس کا ذکر محترمہ نے باربار کیا۔ بھارت پاکستان کو تنہا کر سکا نہ مسئلہ کشمیر دبا سکا۔ وقت نے پاکستان کو نہیں بھارت کو تنہا کر دیا۔ وطن عزیز کے اندر گزرے اتوار کا دن بھی اہم، کہ ساری قوم قائدین باجماعت جاگ اٹھے۔ ایک ہی دن فضل الرحمٰن، عمران خان، بلاول بھٹو، جناب ناصر عباس، شہباز شریف وغیرہ وغیرہ سب کو معلوم ہو گیا کہ’’ جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘۔ چنانچہ اہل سیاست نے بھارتی دشنام طرازیوں کا باجماعت نوٹس لے ہی لیا۔ البتہ عمران کسی طور اپنی رائیونڈ مارچ سے جان چھڑانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ عمران خان نے کرپشن کے خلاف جہاد کو حاصل زندگی بنا لیا اور یہ جہاد پیپلز پارٹی، طاہر القادری، ق لیگ، شیخ رشید وغیرہ کے ساتھ مل کر فتح کے جھنڈے گاڑنا چاہتے ہیں۔ پرائیویٹ محفلوں میں قادری پر اربوں روپے حکومت کوبلیک میل کرکے اینٹھنے کا الزام، پیپلزپارٹی کو تاریخ سیاست کی سب سے کرپٹ پارٹی، شیخ رشید کو ایک خطاب تکرار کے ساتھ دیتے رہتے ہیں۔کرپشن کے خلاف رائے ونڈ مارچ کے چیف ایگزیکٹو اور منتظم عالی کے علیم خان مقر ر ہوچکے ہیں۔ تبصرہ اتنا ہی ’’آنکھوں سے اندھی، نام نوربھری‘‘، کرپشن کے خلاف جنگ علیم، ترین کے سنگ۔
عمران خان کو کوئی کیا سمجھائے کہ ایسے ساتھیوں کی موجودگی میں ضمنی انتخاب بھی ہارتے رہیں گے اور کرپشن کے خلاف جنگ علیم، ترین کے سنگ، یہ لوگ باہر نہیں نکلیں گے۔ 3ہزار بسیں، ویگنیں بھیج کر کروڑوں روپے بہا کر لوگوں کو اکٹھا کر لینا، باہر نکلنا نہیں ہوتا۔ چار مواقع پر لوگ باہر نکلے، قائداعظم کی قیاد ت میں پاکستان موومنٹ، 1977 کی تحریک نظام مصطفےٰ، چیف جسٹس چوہدری افتخار کی بحالی پر اور جناب کے 30اکتوبر 2011کے جلسے میں۔ چاروں میں سے کسی موقع پر 5 ہزاربسیں اور ویگنیں (کراچی تا چترال) کا بندوبست بارے سوچا بھی نہ گیا۔ عمران خان کو اپنے طرز عمل پر غوروفکر کرنا ہوگا۔سیاسی اہلیت پیدا کر نا ہوگی۔ دو نمبری سے دور رہنا ہوگا، دونمبر لوگوں کو کوسوں دور کرنا ہوگا۔کوئی وجہ تو ہے کہ جناب کی سیاست 2011سے مسلسل تنزلی کا شکا ر ہے۔وجوہات ڈھونڈنی ہوں گی۔ ذاتی مفادات اور اقتدار کی خواہش پر مبنی جنگ لوگوں کا اعتما د حاصل نہیں کر پائے گی۔ خوارہی رکھے گی۔

.
تازہ ترین