• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیلسی اور تنقید جیسے فنون میں ہماری قوم کا ثانی نہیں ۔ میں انہیں ’’فنون لطیفہ‘‘ کہتا ہوں کیونکہ یہ عادات سرداروں کے لطیفوں سے کم نہیں ۔ دوسروں کی بات تو بعد میں کریں گے ، پہلے میں اپنے گھر سے شروع کرتا ہوں ۔ جب سے میری گلوکاری اور طبلہ نوازی کی خداداد صلاحیتیں آشکار ہوئی ہیں ، دنیا بھر کے باذوق حلقوں نے مجھے ’’ سُر کا بھگوان‘‘ اور ’’استاذ الطبلہ نوازاں‘‘ جیسے خطابات سے نواز رکھا ہے ۔ تاہم وہ جو کہتے ہیں کہ گھر کی مرغی دال برابر …بیگم صاحبہ اکثر مجھ سے سوال کرتی ہیں’’کیا آپ کو گانا آتا ہے ؟‘‘
ہمارا آپس میں اختلاف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ میرا گانا سننے کے بعد یہ سوال کرتی ہیں ۔ کوئی گھنٹہ بھر سُر ،تال اور لے کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے بعد جب میں ان کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھتا ہوں تو وہ ایک شریر مسکراہٹ کے ساتھ پوچھتی ہیں ’’کیا آپ گانا گا سکتے ہیں؟‘‘ …پچھلے دنوں میں لندن کی ایک تقریب میں محمد رفیع کا گیت گا رہا تھا ۔ بول تھے ’’ٹوٹے ہوئے خوابوں نے ، ہم کو یہ سکھایا ہے ‘‘ …میں نےدیکھا کہ سامنے بیٹھے ایک ہم وطن بزرگ مسلسل روئے جا رہے ہیں ۔ میں گانا ختم کر کے ان کے پاس گیا اور انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی بھی غلطی نہیں بزرگو! ایک تو گیت کے بول بھی بڑے دل سوز ہیں اور اوپر سے میری آواز میں بھی اتنا درد ہے کہ سننے والا جذباتی ہو ہی …وہ میری بات ٹوک کر بولے ’’نہیں صاحب ! یہ بات نہیں ، دراصل میں موسیقار ہوں ، موسیقی کی سوجھ بوجھ رکھتا ہوں ، اس لئے رو رہا تھا‘‘ میں سمجھ گیا کہ سات سمندر پار آ کر بھی بزرگوں کے دل سے روایتی حسد نہیں گیا۔
اسی جبلت کے زیر اثر اہل وطن میرے حالیہ انٹرویو پر چیں بہ جبیں ہیں ، جس میں میں نے کہا ہے کہ جمہوریت پاکستان کے لئے موزوں نہیں ۔ حالانکہ میں نے بقائمی ہوش و حواس خمسہ، لگ بھگ نصف صدی پر محیط اپنی عملی زندگی کے تجربے کا نچوڑ بیان کیا تھا۔ میں وطن عزیز میں بھیڑ بکریاں نہیں چراتا رہا(اگرچہ کچھ مخصوص حلقے معروف معنوں میں تو یہی سمجھتے ہیں) میں نے ملک کے سب سے طاقتور ادارے میں اپنی گرانقدر خدمات سر انجام دیں اور بلا شرکت غیرے حکومت بھی کی ہے ۔ دریں حالات میرا کہا ہوا مستند ہونا چاہئے لیکن ’’فنون لطیفہ ‘‘ مذکور کی بنا پر تنقید کا وہ طوفان امڈ آیا ہے ، جیسے میں نے بھڑوں کے چھتے میں پتھر دے مارا ہو۔ دنیا بھر کے سنجیدہ طبقے مجھے چیئرمین روشن خیالاں ، شمس السیاست ،قمر السیاست اور ملک السیاست جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں مگر اپنے ملک کے چند با شعور اور قدر شناس لوگوں کو چھوڑ کر اہل وطن جس طرح میرے گراں مایہ خیالات کی درگت بناتے ہیں ، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ اس کا ذمہ دار بھی میں خود ہوں ، جس نے میڈیا کو آزادی دے کر اسے طاقتور ادارہ بنا دیا ۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں کو بیری کے بیر کے نازک حصوں کا بھی علم نہیں لیکن وہ معقولیت کی ہر بات میں اپنی ٹانگ اڑانا ضروری سمجھتے ہیں ۔ ادھر کسی نے عقل کی بات کی ، ادھر ان کا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا ۔ کنوئیں کے یہ مینڈک زمینی حقائق کے بجائے اپنی خواہشات کے تابع ہیں ۔ میں نے اپنے اس انٹرویو میں دلائل کے ساتھ کہا تھا کہ یہاں کے جمہوری نظام میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ۔ ایک نابغے نے گرہ لگائی ہے کہ اگر چیک اینڈ بیلنس ہوتا تو سابق صدر بیرون ملک نہیں ، جیل میں ہوتے ۔میں نے کہا کہ ہمارے ملک کی فطری کمزوری ہے کہ جمہوریت اس کے ماحول کے مطابق موزوں نہیں ۔ کسی جاہل نے تبصرہ کیا ہے کہ اس ملک کی یہی فطری کمزوری ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آمریت اس کے ساتھ یہ غیر فطری فعل کرتی ہے ۔
میں اپنے خیالات کا بر ملا اظہار کرتا رہا ہوں کہ اس قوم میں جمہوریت کا ابلیسی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور میری دانست میں اس کا مجرم ذوالفقار علی بھٹو ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مغرب پر جمہوریت کا بھوت سوار ہے اور وہ اپنا یہ بھوت ہم پر ٹھونسنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔ وہ نہیں جانتے کہ ہماری سر زمین کے تقاضے ان سے مختلف ہیں ۔ ہم دہشت گردی سے لڑنے والے لوگ ہیں جبکہ وہ آزادی اور خوشحالی کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہے ہیں ۔ ہم اپنی خواتین کو غیرت کے نام پر زندہ درگور کرنے والی قوم ہیں جبکہ وہ اپنے مُردوں کو بھی زندہ کرنے کے درپے ہیں ۔ ہمارے عوام پر ان کی اپنی زمین بھی تنگ ہو رہی ہے ،اُدھر وہ خلا میں بستیاں بسانے کے پروگرام بنا رہے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ ہر سر زمین کی اپنی اپنی ضرورتیں اور تقاضے ہوتے ہیں ۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں شخصی حکومت اس لئے کامیاب ہے کہ حکمران جوحکم دیتا ہے ، وہی آئین اور قانون بن جاتا ہے ۔ نیز اہل دربار اس حکم کے بعد اس کے حق میں دلائل گھڑ لیتے ہیں ۔ جبکہ جمہوریت میں اپنی بات منوانے سے پہلے ہی دلیل اور عقل کی ضرورت پڑتی ہے اورہمیں ان اشیاء کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔پھر اسمبلیوں میں بحث و مباحثہ اور بل پاس ہوتے ہیں ۔ اس سے جہاں قوم کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے وہاں ترقی کی رفتار بھی ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور ملک عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے ۔ یہاں کے لئے جمہوری نظام اس لئے بھی مناسب نہیں کہ قوم کو کوئی بھی قابل سیاسی رہنما میسر نہیں ۔ نواز شریف اگر کسی قابل ہوتے تو مجھے 35ہزار فٹ کی بلندی سے جمہوریت کو لگام نہ دینا پڑتی ۔ آصف علی زرداری ضرورت سے زیادہ چالاک ہے ، جو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے ، جیسے اس نے مجھے ایوانِ صدر سے رخصت کر کے پہنچایا۔ عمران خان سب کچھ ہو سکتا ہے مگر سیاستدان نہیں ۔ اگر اس میں تھوڑی بہت بھی سیاسی سوجھ بوجھ ہوتی تو پاک بھارت کشیدگی کے اس نازک ماحول میں حکومت کے خلاف ریلیاں نکالتا اور اپنی فوج پر سوات اور وزیرستان آپریشن کے حوالے سے تنقید کرتا؟ لے دے کے صاحبان جبہ و دستار رہ جاتے ہیں ،جو شخصی حکمرانی کے حوالے سے میرے ہمنوا ہیں ، مگر مصیبت یہ ہے کہ وہ فقط اپنے بڑھے ہوئے پیٹوں سے سوچتے ہیں اور اس کام کے لئے ان کے پاس کوئی دوسری چیز نہیں ۔
انہی حالات کے تناظر میں میں نے کہا تھا کہ جمہوریت سے اندھی عقیدت اپنی جگہ مگر پاکستان میں فوج کی قدرو قیمت رہی ہے ، لوگ اس سے محبت کرتے ہیں اور اس سے بڑی توقعات رکھتے ہیں ۔
ملک کو درست سمت میں گامزن کرنے کے لئے ہماری فوج کوان ’’توقعات‘‘ پر پورا اترنا ہوگا۔ جب جمہوریت کی بری طرزِ حکمرانی جاری ہو اور تمام اقتصادی و سماجی اشارئیے نیچے کی جانب جا رہے ہوں تو فوج کو مداخلت کرنا ہی پڑتی ہے ۔ اس مداخلت کے فوراً بعد یہ اقتصادی و سماجی اشارئیے جمپ لے کر آسمان کو چھونے لگتے ہیں ۔اگر موجودہ آرمی چیف ان ’’توقعات‘‘ پر پورا اترنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں میری مدد تو کر سکتے ہیں ۔ میں ایک دفعہ پھر توقعات ہذا پر پورا اترنے کو تیار ہوں ۔ میں نے بڑی محنت سے نا اہل سیاستدانوں کو باہر رکھ کر گائیڈڈ جمہوریت برانڈ ایک بہترین نظام متعارف کرایا تھا ۔ اس نظام کے کرشمے نے جہاں مغرب کی آنکھوں میں دھول جھونک دی وہاںملک بھی ترقی کی شاہراہ پر اوور اسپیڈ دوڑنا شروع ہو گیا تھا ۔آج ترقی کا یہ سفر وہیں سے شروع ہو سکتا ہے جہاں سے اس کی منزل کھوٹی ہوئی تھی ۔ بس ذرااپنی سر زمین کے تقاضوں کی آواز پر کان دھرنے کی ضرورت ہے ۔


.
تازہ ترین