• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سنا ہے پاکستان کے نوجوان سائنس دانوں نے ایسے ایسے ہتھیار بنا لئے ہیں جو دوسروں سے نہ بن سکے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے چھوٹے ایٹم بم تیار کئے ہیں جو توپ سے داغے جا سکتے ہیں۔ اس کے استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے کسی علاقے کو آبادی سے خالی کرالیا جائے اور دشمن کی فوج ظفر موج کو اس علاقے میں اندر تک آجانے دیا جائے۔پھر ایک چکوترے کے برابر بم چلایا جائے اور حملہ آور کو وہیں بھسم کردیا جائے۔ اسی طرح ان ذہین لڑکوں نے میزائیل بنا لئے ہیں جو زمین سے لگے لگے پرواز کرتے ہیں اور درختوں کی چوٹی کو چھوتے ہوئے جب نشانے پر پہنچتے ہیں تب دشمن کو نظر آتا ہے کہ تباہی سرپر آن پہنچی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب پاکستانی سائنس داں یہ طرح طرح کے میزائل آزمارہے تھے تو ہندوستانیوں نے جل بھن کر کہا تھا کہ ہمیں پتہ ہے ، یہ کوریا سے لئے ہوئے میزائیل ہیں، ہمیں مرعوب کرنے کے لئے انہیں آزمائش کے نام پر ضائع نہ کرو۔ اس کے علاوہ تفصیل تو نہیں معلوم لیکن یہ خبر ملتی رہتی ہے کہ نوجوان سائنس داں اور بھی بھانت بھانت کی چیزیں بنارہے ہیں۔ جس دن وہ عجوبے اسلحہ خانے سے نکال کر چلائے جائیں گے ، دشمن سر پکڑ کر بیٹھ رہے گااور کُل بھوشن یادیو جیسے مخبروں کو کوسے گا کہ وہ کیوں بے خبر رہے۔
ہم تو بس ایک ہتھیار کو جانتے ہیں کہ وہ ہے تو دشمن کو دست درازی کی جرآ ت نہیں۔سب جانتے ہیں کہ اس ہتھیار کی مار کوئی سہ نہیں سکتا۔ اس کے ہونے سے غنیم کے حوصلے پست ہیں۔ صاف عرض کریں کہ وہ ایٹم بم نہیں۔ اس کا نام ہے شوقِ شہادت۔ واہگہ سے اِدھر جو قوم آباد ہے وہ عجیب قوم ہے کہ شہادت کے نام پر خوشی خوشی جاکر مرجاتی ہے۔ لوگ شہید کے لواحقین کو مبارک باد دیتے ہیں اور وہ مبارک باد قبول کرتا ہے۔ قوم اس کو سلام کرتی ہے، بڑے اعزاز سے سپرد خاک کرتی ہے اور موقع ہو نہ ہو، اسے یاد کرتی ہے اور کون سی دعا ہے جو اس کی روح کے لئے نہیں کرتی۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا، کسی شہید کو شہر کے ایک پرانے قبرستان میں دفن کیا گیا جہاں پہلے ہی نئی قبروں کی گنجائش برائے نام تھی۔ فوج کو علم ہوا تو اس نے کہا کہ ہمیں تو شہید کی قبر پر یادگار تعمیر کرنی ہے اور اس کے لئے کشادہ جگہ درکار ہوگی۔ چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ قبر کشائی کر کے کسی کھلی جگہ از سر نو دفن کیا جائے۔ یہی ہوا۔ شہید کے باپ نے بیان کیا کہ جب قبر کھولی جارہی تھی،ا وپر بادل کا ٹکڑا آیا اور پھوار پڑنے لگی۔ قبر کھلی تو وہ مہک رہی تھی۔ میت آہستگی سے اٹھا کر نئی قبر میں اتار دی گئی۔ باپ کا دل مسرور تھا اور تا حشر رہے گا۔
تو اس جذبہ شہادت اور شوق شہادت کو دیکھ کر سخت جان سے سخت جان دشمن یہی کہے گا کہ یہ تو دیوانے لوگ ہیں کہ جان دینے پر تلے ہوئے ہیں۔مجھے یاد ہے سنہ پینسٹھ کی جنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ فوج کو اگلے محاذ پر لڑنے دیا جائے اور اس کی پشت پر سڑکوں،پلوں، پانی کے ذخیروں ، بجلی کے نظام اور ریلوے لائنوں وغیرہ کی حفاظت کے لئے خیبر پختون خوا کے قبائل کی مدد لی جائے۔ میں راولپنڈی میں تھا اور اپنے اخبار کو خبریں بھیج رہا ہے۔ میں نے پرجوش اور مسلح قبائل کے قافلے ٹرکوں میں بھرکر میدان جنگ کی طرف جاتے دیکھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہاں پہنچتے ہی قبائلیوں نے کہا کہ دکھاؤ دشمن کدھر ہے، ہمیں دشمن دکھاؤ۔ انہیں بڑی مشکل سے سمجھایا گیا کہ دشمن سے فوج نمٹ لے گی، آپ لوگ پیچھے رہ کر فوج کو سہارا دیں۔وہ بڑی مشکل سے مانے۔ اس بار بھی سنا ہے وہ اپنے اسلحے چمکا رہے ہیں۔ اس کے بعد غنیم سے کہا جاسکتا ہے کہ آپ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے چھیڑ چھاڑ کرلیں اور سرحد پار سے گولے داغنے کا شوق پورا کرلیں لیکن براہ کرم جنگ ونگ کا خیال دل سے نکال دیں۔
ویسے یہ پاکستانی بھی عجیب قو م ہے۔ سنہ پینسٹھ کی لڑائی لڑی جا رہی تھی اور یہ لوگ گھروں سے کھانا پکا کر محاذوں پر پہنچا رہے تھے۔ اوپر فضا میں طیاروں کی جھڑپیں ہوتیں جو ڈاگ فائٹ کہلاتی تھیں، لوگ اپنے مکانوں کی چھتوںپر چڑھ کر لڑائی کا نظارہ کیا کرتے تھے اور اپنے ہوابازوںکا حوصلہ اس طرح بڑھاتے تھے جیسے طیاروں کی لڑائی نہ ہو ،پتنگ کا پینچ ہو۔پاکستان کے مشہور کیرکٹر ایکٹر علاؤالدین سرحد پر کسی اونچے مقام پر چڑھ کر بھارتی فوجیوں کو للکارنے کے بعد اپنے مخصوص انداز میں جذباتی تقریر کرنے لگے،اس پر اُدھر سے بھارتی افسر نے پیغام بھیجا کہ ان صاحب کو خاموش کیا جائے ورنہ ہم گولی ماردیں گے۔ہمارے دوست اور مشہور صحافی داؤد سبحانی مرحوم کہیں باتیں بنا کر اس وقت میدان جنگ میں جا پہنچے جب چونڈا کے مقام پر ٹینکوں کی لڑائی ہو رہی تھی۔ سبحانی کسی خندق کے اندر بیٹھے تھے جہاں سے وہ کیمرا اونچا کرکے لڑائی کی تصویریں اتارنے لگے۔ یہ دیکھ کر پاکستان کے کسی فوجی افسر نے ڈانٹ پلائی اور کہا کہ یہ کوئی کھیل نہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان نے اُن ہی دنوں جرمنی سے ٹینک شکن کوبرا میزائل حاصل کئے تھے جو ایک تار سے جڑے ہوتے تھے اور جن سے بھاری بھرکم ٹینک کو پل بھر میں تباہ کیا جاسکتا تھا۔ جنگ چھڑی تو فوج کو تربیت دے کر وہ میزائل اس کے حوالے کردئیے گئے۔ پاکستان کو یقین تھا کہ آج وہ بھارتیوں کو سب سے بڑا سرپرائز دے گا یعنی حیرت کے سمندر میں غرق کردے گا۔ ہو ا یہ کہ بھارتی فوج نے ٹینکوں سے پہلے اپنے ٹرک آگے بڑھا دیئے۔ پاکستانیوں نے آو دیکھا نہ تاؤ، ان ٹرکوں ہی کو نشانہ بنا دیا۔ ا س پر بھارت نے ایک لمحے کی دیر لگائے بغیر اپنے ٹینک پیچھے ہٹالئے۔
بڑے ہی جیالے لوگ ہیں۔ میں بھارت کی گولہ باری کی رپورٹنگ کرنے کشمیر کے قریب گاؤں اعوان شریف گیا جہاں بہت سے لوگ چلتے پھرتے نظر آئے۔ میں نے کسی سے کہا کہ یہ گاؤں کے باشندے نہیں معلوم ہوتے۔ جواب ملا جی نہیں یہ حریت پسند ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے اندر جاکر کارروائیاں کرتے ہیں۔ پھر تو ان سے دیر تک باتیں ہوئیں اور میں نے ان کی کہانیاں سنیں۔میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ دیکھنے میں یہ جو عام سے آدمی نظر آتے ہیں ، جان ہتھیلی پر رکھ کر جنگی کارروائیاں کرتے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں۔اس پر مجھے اپنے بڑے بھائی سرور علی مرحوم یاد آتے ہیں جو اسکالر تھے اور ایک قومی انگریزی اخبار میںنہایت فکر انگیز مضامین لکھا کرتے تھے۔ جب جنگ چھڑی توا نہوں نے اعلان کیاکہ اگر انہیں طلب کیا گیا تو وہ محاذ پر جاکر لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ اس پر مجھے ایک قومی نغمے کا یہ بول یاد آتا تھا: میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہء تن، اے میرے پیارے وطن۔
اب ایک بات ،اور یاد رکھنے کی بات۔ جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت کبھی تنہا نہیں آتے۔ ان سے لگی لگی ظلم سے نفرت اور شدید نفرت بھی پورے وجود میں سرایت کرتی ہے۔ یہاں یہ کہنا مشکل ہے کہ پہلے کیا آتا ہے۔ ظالم سے نفرت یا حق کی خاطر مر مٹنے کا عزم۔ یہ میں پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں مگر یہ دونوں احساس جڑواں ہیں اور کوئی چاہے بھی تو انہیں جد ا نہیں کرسکتا۔آج جب میں اپنے ان خیالات کو کاغذ پر بکھیر رہا ہوں، کشمیر میں بے بس آبادی پر ایسے ستم توڑے جارہے ہیں کہ تاریخ بھی دنگ ہے جس نے ظلم کی شاخ کو جلتے ہوئے بارہا دیکھا لیکن اس بار بجلی گرنے میں دیر کر رہی ہے۔ دوسری خون کے آنسو رلانے والی خبر کوئٹہ سے آئی ہے جہاں مسافروں کی ایک بس پر حملہ کرکے ہزارہ نسل کی چار نیک اور پاکباز بیبیوںپر تاک کر گولی چلائی گئی ۔ان مظلوموںکے شانے اپنے چاہنے والوں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے شل ہو چکے ہیںاور کوئی ایسا جری اور دلاور نظر نہیں آتا جو دہشت گردوں کی کلائی مروڑ دے۔ یہی حال کشمیر کا ہے۔ ظلم ہے کہ طول کھینچتا جا رہا ہے۔ ہمارے اندر اتنا دم خم نہیں کہ یہ کہتے ہوئے کہ بہت ہو چکا، اٹھیں اور بربریت کے نرخرے پر انگوٹھا رکھیں جسے پھر کبھی نہ اٹھائیں۔


.
تازہ ترین