• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں پچھلے ڈھائی عشروں سے زرمبادلہ کی بیرون ملک منتقلی پر کسی مؤثر کنٹرول کے نہ ہونے کے نتیجے میں سابق گورنر اسٹیٹ بینک یاسین انور کے مطابق اوسطاً ڈھائی کروڑ ڈالر یومیہ ملک سے باہر جارہے ہیں اور اس حساب سے اب تک کم و بیش180ارب ڈالر پاکستان سے باہر بھیجے جاچکے ہیں۔یہ صورت حال 1992ء میںپروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے جاری ہے۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی پاکستانی یا غیر ملکی پاکستان کے اندر مارکیٹ سے ڈالر یا کوئی اور کرنسی خرید کر کسی کمرشل بینک میں فارن کرنسی اکاؤنٹ کھول سکتا اور اس کرنسی کو اسٹیٹ بینک یا ایف بی آر کی اجازت تو کجا ان کے علم میں لائے بغیر ملک سے باہر بھیج سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کی منتقلی کی اس کھلی اجازت نے پاکستانی سکے کی قدر گھٹانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، اس کے نتیجے میں جو ڈالر چوبیس سال پہلے تیس روپے کا تھا وہ آج ایک سو پانچ روپے کا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے پاکستانی کرنسی کی قدر میں مزید بیس فی صد کمی پر اصرار کررہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ اخباری رپورٹ یقینا اطمینان بخش ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت زرمبادلہ کی اس بے لگام منتقلی پر قابو پانے کے لیے مذکورہ قانون میں ترمیم کرکے زرمبادلہ کی منتقلی کے لیے اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر سے اجازت لیے جانے کو لازمی قرار دینے پر غور کررہی ہے تاکہ قومی معیشت اور کرنسی کے استحکام کی راہ ہموار ہو۔ واضح رہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش ہی میں نہیں امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں بھی بیرونی زرمبادلہ کی یوں کسی روک ٹوک کے بغیر منتقلی کی اجازت نہیں ہے اور اس کی حد متعین ہے۔تاہم اس قانون سازی میں یہ امر بہرحال ملحوظ رکھا جانا چاہئے کہ اس کے نتیجے میں ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری متاثر نہ ہو اور پابندیاں مناسب حدود کے اندر رہیں۔

.
تازہ ترین