• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے وہ مجھے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشنوں کے اندرلوگوں کوراستہ دکھاتے اورووٹ دینے کا طریقہ سمجھاتے ہوئے نظرآئے، پھروہ اسکول کی چھٹی کے وقت بچوں کو سڑک پارکراتے اورچلتی گاڑیوں کوروکنے کے کام پرمامورملے، اسی دوران جب نیویارک کے ایک مقامی اسپتال میں پارہ چنار سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرمسرت حسین کی وجہ سے جب مجھے علاج کا نظام دیکھنے کا موقع ملا تومیں حیران رہ گیا وہ وہاں بھی کھڑے تھے ان میں سے ایک نے میرے لئے اسپتال کے لفٹ کا بٹن دبا کرمیرے مطلوبہ وارڈ یا کمرے کے بارے میں رہنمائی کی پیشکش کی میں ان کی رہنمائی میںجلدی جلدی ڈاکٹرمسرت کے پاس پہنچا جلدجانے کی وجہ یہ تھی کہ میرا خیال تھا کہ رہنمائی کے نام پرـ"وہ"ـ کچھ مانگ ہی نہ لیں۔ میں نے ڈاکٹرسے کہا یہ کون لوگ ہیں جوہرجگہ پائے جاتے ہیں تووہ ہنس پڑے اوربتایا کہ یہ مقامی فرشتے ہیں جنہیں یہاں پر لوگ والنٹیئرزیعنی رضاکارکے نام سے جانتے ہیں۔میں نے پوچھا یہ کون ہیں جوتمام کے تمام ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے ہیں لیکن کام ایسے کرتے ہیں جیسے یہ کوئی مذہبی فریضہ ہو، میں نے انہیں بتایا کہ ایسے ہی لوگ سمندرکنارے بھی موجود تھے جووہاں سیرسپاٹے کے لئے آنے والوں کے گرائے گئے گند کو خود اپنے ہاتھوں سے صاف کررہے تھے اورجب ان سے پوچھا کہ وہ کیوں ایسا کررہے ہیں توان کا جواب تھا کہ وہ کیوں ایسا نہ کریں جبکہ وہ یہ کرسکتے ہوں۔ ڈاکٹرصاحب نے بتایا کہ یہ سب صرف ان جگہوں پرہی نہیں پائے جاتے بلکہ یہ فائربریگیڈ کی گاڑیوں کے ساتھ بھی جاتے ہیں اورجب آگ لگی ہو تووہ وہاں سے لوگوں کو ہٹاتے ہیں۔ انکے جواب سن کرمیرے تورونگٹے کھڑے ہوگئے یہ کوئی ایرے غیرے نہیں بلکہ امریکہ میں مختلف شعبوں میںاعلیٰ عہدوںپر خدمات سرانجام دینے کے بعد ریٹائرلائف گزاررہے ہیں اوریوں وہ اپنی آخری عمرمیں گھرمیں آرام اورگلی محلوں، غمی خوشی میں اپنے ماضی کے قصے سنانے کے بجائے باضابطہ طورپرمختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں اوراس کے بدلے میں کچھ بھی نہیں لیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب تعلیم، صحت، انصاف اوربہت سارے شعبوں سے ریٹائرہونے کے بعد انہی شعبوں میں آنے والے لوگوں کے لئے رہنمائی کا کام سرانجام دیتے ہیں اورنہ صرف یہ کہ وہ یہ کام کرتے ہیں بلکہ اپنی کمائی ہوئی دولت بھی صحت اورتعلیم سمیت مفادعامہ کے مختلف منصوبوں کے لئے وقف کرچکے ہیں اورپھران منصوبوں کی تکمیل تک ان میں کام کے معیار کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ویسے امریکہ میں تعلیم اورصحت میں سب سے زیادہ اپنی دولت وقف کرنے والے یہودی ہیں۔ تب میری سمجھ میں آیا کہ صدارتی انتخابات کے روزنیویارک کے علاقہ استوریہ کوئنزمیں لوگوں کی رہنمائی کرنے والی پچھترسالہ میری سمتھ کیا کام کررہی تھی۔ اسکول کے تہہ خانے میں بنے اس پولنگ بوتھ پرلوگوں کے رش میں وہ انتظارکرنے والے ووٹرزکی دلجوئی کررہی تھیں اورانہیں لطیفے تک سنارہی تھیں تاکہ وہ انتظارسے اکتاکرووٹ ڈالے بغیرواپس نہ چلے جائیں، میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کررہی ہیں توان کا کہنا تھا کہ الیکشن جوبھی جیتے چاہے وہ ہیلری کلنٹن ہو یا ڈونلڈ ٹرمپ، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا انہیں جمہوری نظام کو بہتر سے بہترانداز میں چلانے کے لئے کردارادا کرنا ہے کیونکہ جتنا نظام شفا ف ہوگا اس کافائدہ آنے والی نسلوں کو ہوگا۔نیویارک کی واکر اسٹریٹ کے قریب بچوں کو سڑک پارکرانے والے اسی سالہ رضاکارسے میں نے پوچھا یہ تو آپ کے آرام کے دن ہیں آپ یہاں کیا کررہے ہیں توان کا بھی جواب کچھ ملتا جلتا تھا ان کا کہنا تھاکہ یہ جوگاڑیاں ہرطالب علم کے لئے کھڑی ہورہی ہیں اوروہ خود بھی ان کو روک ر ہے ہیں ان سب کو احساس ہے کہ یہ طالب علم ان کے مستقبل کا قیمتی سرمایہ ہیں اس لئے وہ ان کا خیال رکھ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا آپ کے توآرام کے دن ہیں توان کا کہنا تھا کہ زندگی میں جو کچھ سیکھا اس کو مرتے دم تک کام میں لانا ان کی آخری خواہش ہے۔
نیویارک کی گلیوں اوربازاروں میں کام کرنے والے یہ رضاکارکوئی عام لوگ نہیں یہ ریٹائرمنٹ کے وقت انتہائی اہم عہدوںپرفائز تھے اوران میں وہ بھی ہیں جوایجوکیشن اورہیلتھ کے میدان میں وائٹ ہاوس کی سطح پراپنی ا سٹیٹ کی نمائندگی کرچکے تھے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی پوزیشن کو بھول کرسڑک پرکھڑے ہوگئے کہیں کسی نے اسپتال کا دروازہ اورلفٹ سنبھال لی ہےکہ آنے والوں کی رہنمائی کی جائے اورکہیں کسی نے سمندرکنارے صفائی کا کام اپنے ذمے لے کر جھاڑو اور گند کا تھیلا سنبھال لیا ہے۔یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے خون کھول رہا تھا کہ میں جس معاشرے سے آیا ہوں وہاں پرتوایک پٹواری، ایک ایس ایچ او، ایک پروفیسر، ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر یہاں تک کہ گریڈ سولہ سے اوپرکا کوئی افسرریٹائرہوجائے تووہ اپنے ماضی کے قصے کہانیاں لے کرپوری قوم پراحسان جتاتا ہے کہ اس نے دوران ملازمت کیا کیا کارنامے سرانجام دیئے ، دوران ملازمت صرف شفٹ ٹائم پورا کرنے والے بھی ریٹائرمنٹ کے بعد ایسی ڈھینگیں مارتے ہیں جیسے انہوں نے بڑی ایجادات کی ہوں اورافسروں کے سامنے جھکنے والے بھی اپنی بہادری کے قصے سناتے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے ہرغمی خوشی کے موقع پردوران ملازمت اپنی پوزیشن کی بنیاد پرسارے معاشرے سے عزت کے طلبگارہوتے ہیں اورہربڑے موقع پراپنے لئے ایک نمایاں جگہ ملنے، سب سے پہلے اورسب سے اچھا کھانا ملنے کا حقدارسمجھتے ہیں، ایسے بہت سے ریٹائرڈ لوگ پورے معاشرے سے اپنی اس نوکری کا خراج وصول کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تووہ پٹواری بھی پوری عزت ما نگتے ہیں جودوران ملازمت کی گئی چوریوں کے لئے نیب سے ہاتھ ملاچکے ہوں وہ لوگ بھی عزت کے طلبگارہوتے ہیں جنہوں نے اپنی پوری ملازمت کے دوران کوئی نمایاں کام نہیں کیا ہوتا۔ ایسے معاشرے سے تعلق ہونے کی وجہ سے میں نے نیویارک میں ہرایسے رضاکارکوحسرت سے دیکھا کہ کاش ہمارے بوڑھے بھی اگررہنمائی کا کام جاری رکھیں توہمارے ایک ہزارمسائل حل ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں قیام کے دوران ابھی تک کسی بڑے سماجی اورانتظامی مسئلے پرنظرنہیں پڑی جس میں ان رضاکاروں کا بڑا حصہ ہے جوبغیرتنخواہ کے فرشتوںکا کام کرتے ہیں ۔



.
تازہ ترین