• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیائے ہست وبود کے تماشے میں جب بھی کوئی مشکل مرحلہ آئے تو میں علم کے شہر کی طرف دیکھتا ہوں اور پھر علم کے دروازے پر دستک دیتا ہوں۔ آج میں علم کے دروازے یعنی حضرت علی ؓ کے تین اقوال تحریر کروں گا اور پھر ایک قول علم کے شہر یعنی سید الانبیاءحضرت محمدﷺکا بیان کروں گا۔ جو کچھ موجودہ حالات میں ہو رہا ہے اس کی وضاحت ہو جائے گی۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں ’’...جہاں کہیں بھی دولت کے انبار دیکھو تو سمجھ لو کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہوئی ہے..‘‘ دولت کی حیثیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’... دولت خاک کی مانند ہے ...‘‘ پھر آپؓ نے ایک مرتبہ خاک کو ہتھیلی پر رکھا اور پھونک مار کر اڑا دیا اور کہا ’’...دولت کی یہی حیثیت ہے ...‘‘ایک اور مقام پر جناب علیؓ فرماتے ہیں کہ ’’...دولت کی ہوس کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے ...‘‘ حضرت محمدﷺ (میری جان آپ ؐ پر قربان ) نے دنیا کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’..دنیا کی زندگی ایسے ہی ہے جیسے کوئی مسافر چند لمحوں کیلئے کسی شجرسایہ دار کے نیچے آرام کی غرض سے رک جائے، بس اس سے زیادہ انسانی زندگی کیا ہے ، کچھ بھی نہیں ..‘‘
مجھے مولانا رومی ؒ کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے ایک مرتبہ چند مسافر مولانا رومی ؒ کے گھر پہنچے، چہروں پر تھکاوٹ کے آثار تھے مولانا رومی ؒ نے مسافروں سے کہا کہ وہ ان کے گھر پر آرام فرمائیں، مسافر گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک پیالے، چند برتن اور ایک چٹائی کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا، مسافر حیرت زدہ ہوگئے پھر اسی حیرت میں مولانا رومیؒ سے پوچھا کہ آپ کے گھر کا سامان کہاں ہے ؟ رومی ؒ نے جواباً پوچھا، آپ اپنا سامان ساتھ کیوں نہیں لائے؟ مسافر بولے ’’...ہم تو مسافر ہیں، سفر میں زاد راہ کے علاوہ کیا اٹھاتے ..‘‘ پھر اس کے بعد مولانا رومی ؒ بولے ’’...بس میں بھی مسافر ہوں، میں بھی دنیا کے اس سفر میں زاد راہ سے زیادہ کیوں رکھوں ...‘‘
چار اقوال اور ایک واقعہ تحریر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جب یہ زندگی عارضی سی ہے، سفر کی طرح ہے تو پھر اس میں مال وزر جمع کرنے کا کیا فائدہ ؟ یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آئیں کہ جس وقت ایل او سی پر بھارتی توپیں گولے برسا رہی تھیں، آزاد کشمیر میں شہری اور فوجی جوان شہید ہو رہے تھے عین اسی وقت ہماری وفاقی کابینہ، اراکین پارلیمنٹ کی رقم بڑھا رہی تھی، اس سے خزانے پر چالیس کروڑ کا بوجھ پڑے گا مگر یہاں کسی کو بوجھ سے کیا غرض، یہاں تو اپنی موجوں کی آرزو میں آٹھ ہزار ارب کے قرضے لئے جاتے ہیں، یہاں کتنے انسان ہیں جنہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں، کتنے ایسے ہیں جنہیں چھت میسر نہیں اور کتنے ایسے ہیں جو دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، وہ بھی کتنے ہوں گے جنہیں علاج میسر نہیں، وہ بھی تو ہیں جن کے بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ۔ سرحدوں پر جنگ کے بادل ہیں اور ’’سپریم ادارہ ‘‘ پارلیمنٹ کے اراکین کی تنخواہ میں اضافے کا فیصلہ ہو رہا ہے، واہ کیا بات ہے سندھ میں جہاں تھر بھی ہے وہاں سندھ سیکرٹریٹ کے بارہ ہزار ملازمین کو نوازنے کیلئے یوٹیلٹی الائونس کا اعلان کر دیا گیا ہے یہ الائونس دوہزار سے لیکر چالیس ہزار تک ہو گا۔ سندھ کے باقی ملازمین اس فیصلے پر حیران ہیں، ان کا سوال ہے کہ کیا ہمارے یوٹیلٹی بلز کی مد میں اخراجات نہیں ہیں، اگر یوٹیلٹی الائونس دینا ہی تھا تو پھر سندھ کے تمام ملازمین کو دیتے، صرف سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے ملازمین اور افسران ہی کو کیوں؟ اس کیوں کا جواب تو مراد علی شاہ ہی دے سکتے ہیں یا پھر پیپلز پارٹی کی قیادت دے سکتی ہے، اس ناانصافی کا تدارک ہونا چاہئے۔ جب جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہوں تو پھر ایسے ماحول میں اس کی کیا ضرورت تھی جس پہ زیادہ زور اسحٰق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے کیوںدیا، اس پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہے اور اس مرتبہ اس نے کشمیر کے علاقوں میں چھیڑ چھاڑ شروع کر رکھی ہے اس کے پس پردہ مودی کی گھٹیا ہندو ذہنیت ہے ۔ مودی کا خیال ہے کہ جب انڈین فوجی گولہ باری کرتے ہیں تو پاکستان کی طرف مسلمان موت کے منہ میں جاتے ہیں اور جب جواباً پاکستانی فوج گولے برساتی ہے تو مقبوضہ کشمیر کی سویلین آبادیاں نشانہ بنتی ہیں اس سے بھی مسلمانوں ہی کا نقصان ہوتا ہے۔ ہندوئوں کا یہ پرانا خواب ہے کہ وہ کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ، اسی لئے انڈین فوج نے اپنے جنگی مورچے سول آبادیوں کے قریب بنا رکھے ہیں جبکہ پاک فوج نے اپنے جنگی مورچے سول آبادیوں سے دور قائم کر رکھے ہیں ۔ اسی لئے ہماری فوج کو جواباً بہت سوچ سمجھ کر گولہ باری کرنا پڑتی ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر کی سول آبادی کا نقصان نہ ہو۔
آج میں اپنے قارئین کو ایل او سی، ورکنگ بائونڈری اور بارڈر کا فرق بتاتا چلوں، ایل او سی یعنی لائن آف کنٹرول وہ ہوتی ہے جس کے دونوں جانب وہ علاقہ ہو جس کا فیصلہ ابھی ہونا ہو، ورکنگ بائونڈری وہ ہوتی ہے جس کے ایک طرف فیصلہ شدہ علاقہ ہو جبکہ دوسری جانب وہ علاقہ ہو جو ابھی فیصلے کا منتظر ہو، بارڈر اسے کہتے ہیں جہاں دونوں جانب فیصلہ شدہ علاقے ہوں ،یعنی دونوں جانب دو ملک ہوں۔
آج کل قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے اس اجلاس میں شریک اراکین اور صحافی حیرت زدہ ہیں کہ آخر وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے انچارج بیوروکریٹ کو تنقید کا نشانہ کیوں بنایا ہے، وہ ایک بیورو کریٹ پر اتنا کیوں برسے ہیں، پارلیمنٹ کی راہداریوں میں یہ زیر بحث ہے ۔یہ کوئی نئی بات نہیں، اراکین اسمبلی سے یہ سلوک پہلے بھی ہوتا تھا یہ بھی کوئی نئی بات نہیںمگر کوئی نئی بات ہے ضرور اس نئی بات کا تذکرہ پھر سہی۔ فی الحال راشدہ ماہین ملک کا شعر کافی ہے کہ
یہ کہانی عشق کی ہے دیکھنا
یہ حدیث دلبراں ہو جائے گی


.
تازہ ترین