• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ پانچوں اے لیول کے بچے تھے اور میرے پاس امتحان کی تیاری کیلئے آتے رہتے ہیں اور میں اپنے تجربے کی روشنی میں ان کی رہنمائی کرتا ہوں لیکن مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آج ان کا پڑھنے کا نہیں بلکہ شرارتوں کا دل تھا میں نے بہت کوشش کی کہ اپنی باتوں اور دلائل سے قائل کرلوں کہ وقت ضائع نہیں کرتے اور وقت پر پڑھنا ہی بہتر ہوتا ہے لیکن میری کوئی بات کوئی دلیل کوئی نصیحت ان پر اثر نہیں کررہی تھی دراصل ہر نسل پہلی نسل سے مختلف ہوتی ہے ، اس کاسوچنے کا انداز مختلف ہوتاہے لیکن یہ یونیورسل سچائی ہے کہ وقت کی قدر کرنی چاہیے اور محنت اور لگن ہی کامیابی کی کنجیاں ہیں لیکن بچوں پر جب کبھی شرارت، کھیل یا پڑھائی کے علاوہ کسی دیگر مثبت سرگرمی کا دل چاہ رہا ہو اس کو اس کی اجازت بھی دینی چاہئے، اب یہ پانچوں بچے بھی اسی شرارت کے موڈ میں تھے اور اپنے ایک دوست کو اپنی جگتوں کا نشانہ بنا رہے تھے اسے ایک کہہ رہا تھا کہ یار تم اس روز’’ ڈاگ شو‘‘ میں گئے تو تمہیں کوئی انعام بھی ملا یا ہار گئے تو لڑکا بے چارہ ان دیگر چار دوستوں کے مقابلے میں معصوم تھا جواب میں کہنے لگا یار جیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی انعام ملنے کا کیونکہ میرے پاس تو ڈاگ ہی نہیں تھا میں تو ویسے ہی ڈاگ شو دیکھنے گیا تھا، تو ایک نے پھر اسے چھیڑتے ہوئے کہاکہ آخر ججز نے تمہیں بھی تو دیکھا ہی ہو گا؟ تمہارا بھی انعام تو بنتا ہے جس پر معصوم دوست نے چڑتے ہوئے کہاکہ کیوں میں کوئی کتا ہوں کہ ججز مجھے دیکھ کر انعام دیں گے ، بس شرارتی بچوں کی تو یہی کامیابی ہوتی ہے کہ وہ جس کو مذا ق کا نشانہ بنا رہے ہوں وہ چڑ جائے میں ان لڑکوں کی اس شرارت سے محظوظ ہو رہا تھا اور چاہتے ہوئے بھی ان کو روک نہیں پارہا تھا کہ ان میںسے اب ان کی گفتگو نے تھوڑا پہلو بدلا تو بات سیاست کی طرف جا نکلی تو ان میں سے تین لڑ کو ں نے مسلم لیگ(ن) اور دو نے پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بنا نا شروع کردیا، مسلم لیگ(ن) کے حما یتی لڑ کو ں نے اپنی جگتوں کا کچھ اس طرح آغاز کیا کہ وہ اپنے دوست اور مسلم لیگ(ن) کے حمایتیو ں سے کہنے لگا کہ یہ بتائو کہ دنیا میں سب سے زیادہ اے ٹی ایم (مشینیں) کہاں پائی جاتی ہیں تو مسلم لیگ(ن) کے حمایتی بچے نے فوراً جواب دیا پی ٹی آئی میں جس پر پی ٹی آئی کے حمایتی بچے چڑ گئے اس سے پہلے کہ بچوں میں تلخی بڑھ جاتی تو میں نے ان کی گفتگو میں دخل اندازی کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیف آف آرمی اسٹاف بنے ہیں اس پر ان کا کیا تبصرہ ہے اس سے پہلے کہ میں ان بچوں کا جواب آپ کے سامنے رکھوں یہ بتادوں کہ ان پانچ بچوں میں سے تین آرمی افسران کے بچے ہیں تو ایک نے جواب دیا سر نئے آرمی چیف کا تعلق راولپنڈی سے اس لئے زیادہ ہے کہ انہوںنے ویسٹریج میں رہائش اختیار کئے رکھی ہے اور مال روڈ پر ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں پڑھتے رہے ہیں اور اس نے اپنے والد کو کوٹ کرتے ہوئے کہاکہ میرے والد صاحب کہتے ہیں کہ یہ پروفیشنل اور منجھے ہوئے افسر ہیں تو دوسرے بچے نے فوراً فقرہ کسا کہ باقی کونسا ریلوے میں ملازمت کرتے رہے ہیں اور پھر کہنے لگا سر لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچنے والے سارے ہی فوجی افسران اچھے اور منجھے ہوئے ہوتے ہیں جس کی قسمت یاوری کرتی ہے وہ چیف بن جاتا ہے اور سر چیف بننے کے بعد یکدم سارے جنرلز کی سوچ ایک عا م جنر ل سے تبدیل ہو کر ایک سپہ سا لا ر کی ہوجاتی ہے لیکن یہ بات درست ہے کہ جنرل باجوہ باصلاحیت جرنیل ہیں میں نے اس بحث کو بھی تبدیل کرتے ہوئے بچوں سے پوچھا کہ جنرل راحیل شریف کیسے چیف تھے بچوں نے دل کھول کر تبصرے کئے اور ایک کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل نے اپنے تین سالہ دور میں اپنی تمام عیدیں اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارنے کی بجائے بارڈر پر فوجیوں کے ساتھ گزاری اور انہوںنے اپنا ملنے والا پلاٹ تک شہداء فنڈز میں دے دیا ہے ، دوسرے بچے نے میرے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ سر چیف جب ریٹائر ہوجاتا ہے تو اس کا آرمی ہاؤس خالی کرنے کا بالکل دل نہیں کرتا بلکہ آرمی ہاؤس کو چھوڑنے کی بہت تکلیف ہوتی ہے اور جانے والا چیف اس آرمی ہاؤس کو خالی کرنے کے لئے کئی کئی دن ، ہفتے یا مہینے لگادیتا ہے ، جیسا کہ پرویز مشرف نے جنرل کیانی کو آرمی ہاؤس دیتے ہوئے کافی عرصہ لگا دیا تھا ، لیکن جنرل راحیل نے اپنی ریٹائرمنٹ کے دن ہی آرمی ہاؤس کو خالی کردیا تھا، ایک بچہ جو اب تک خاموش بیٹھا تھا میں نے اس سے اس کا تبصرہ پوچھا تو کہنے لگا سر میرے والد کہتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے بہت اچھے اچھے کام کئے ہیں بڑی دلیری سے فوج کی قیادت کی دہشتگردوں کی سرکوبی کیلئے بہادری سے فیصلے کئے ہیں ، کنوئیں کو پاک کرنے کیلئے انہوںنے گندے پانی کے بہت سے ڈول نکالے ہیں لیکن کاش وہ اس کنوئیں سے ایک دو ناپاک گدھے بھی نکال دیتے تو ہوسکتا ہے ان پر تنقید تو ہوتی لیکن ملک پر ان کا بڑا احسان ہوتا۔

.
تازہ ترین