• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے جاں عمارتوں کو قائدانہ صلاحیتوں والے لوگ ہی زندہ کرتے ہیں۔ انتظامی معاملات کو احسن طریقے سے سرانجام دینے والے تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔ میں نے زندگی میں احمد شاہ جیسا عجیب شخص نہیں دیکھا۔ انسانی قدروں کی ترویج کے لئے ادب کو وسیلہ کرنے والا اپنی ذات میں ایک عجوبے سے کم نہیں کیوں کہ عشق کا مسافر ہے اس لئے جنون کے آخری درجے پر فائز ہے۔ تھکن، مایوسی، نامُرادی کے لفظ اس کی ڈکشنری سے حذف ہو چکے ہیں۔ ادیبوں، فنکاروں اور دانش وروں سے اس کا برائے نام رابطہ نہیں بلکہ سب سے اپنائیت کا رشتہ ہے۔ اخلاص، سچائی اور محبت کی مقناطیسی قوت والا تعویذ ہر لمحہ اسے جاذب نظر بنائے رکھتا ہے۔ ہر کوئی کھنچا آ رہا ہے۔ کوئی دوست، کوئی بھائی اور کوئی بیٹا سمجھ کر وارے نیارے جا رہا ہے۔کراچی آرٹس کونسل میں نویں اُردو کانفرنس صرف اردو، اردو کا راگ نہیں بلکہ ایک میلہ ہے جس میں ادب اور ثقافت کے تمام رنگ اُجاگر ہیں۔ ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں پاکستان کے ہر علاقے میں کھلنے والے پھولوں کی نمائندگی ہے۔ میلہ مِلن کا وسیلہ ہوتا ہے۔ میلے میں انسان خود کو بھی تلاشتا ہے، کھوئی اور بھولی بسری یادوں کو تازہ کرتا ہے اور نئے ولولوں کے ساتھ زندگی کے مقابل ہوتا ہے۔ دِل میں بسنے والے تو ہر وقت ساتھ رہتے ہیں مگر فکری اور نظریاتی دوستوں سے ملاقات فکر کے کئی دریچے وا کرتی ہے۔ ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے مابین ایک نامعلوم سا رشتہ ہوتا ہے۔ یہ دھرنا کزن تو نہیں مگر اپنائیت کے دھاگوں میں بندھے ہوتے ہیں۔ ان سب کے سامنے خود کو طالب علم سمجھنے والے احمد شاہ نے جو ابتدائیہ پیش کیا وہ ایک نئی زندگی کا منظر نامہ تھا جس میں پاکستان کو درپیش فرقہ واریت کا قلع قمع کرنے کے لئے ادیبوں کو کردار ادا کرنے کو کہا گیا۔
کانفرنس کے پہلے دن کے تمام سیشن پنجاب کے آفاقی شاعر فیض احمد فیض کے حوالے سے تھے جن پر بات کرنے والوں میں زہرہ نگاہ، آئی اے رحمن، عارف نقوی، ظفر اللہ پوشنی، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، رضا علی عابدی، مسلم شمیم اور عظیم مشتاق احمد یوسفی میں سے کوئی بھی پنجابی نہیں تھا مگر انہوں نے فیض کی فکر اور شخصیت سے جس محبت کا اظہار کیا اس کا بیان ممکن نہیں۔ شیما کرمانی اور اُن کے ساتھیوں نے ذکرِ یار کے عنوان سے فیض کے لفظوں کی دلفریب عکاسی کر کے پورے ماحول کو رقص کناں بنا دیا، آمریت کے شکنجے میں مقید انسان کا درد اور جبر تجسیم ہو کر سامنے آ گیا۔ وحشتیں ماتم کناں ہوئیں تو ہر آنکھ نم ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
اردو کانفرنس میں پاکستانی زبانوں کی نمائندگی اور انہیں قومی ہم آہنگی سے استوار کرنے کی روایت بھی جاندار اور قابل ستائش ہے۔ پاکستانی زبانوں کے ذریعے ہی وہ حقیقی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جسے پاکستانی معاشرہ کہا جا سکے ورنہ خبرنامے میں ہم آہنگی کا راگ ایک عرصے سے جاری و ساری ہے مگر حقیقتاً کہیں موجود نہیں۔ آج کا دور ثقافتی و ڈپلومیسی کا دور ہے۔ اس اُدھڑے زخم خوردہ ماحول کو ثقافتی رنگوں سے جوڑ کر صحت مند بنایا جا سکتا ہے۔ ملک کے تمام ثقافتی اداروں کے سربراہوں سے عصری تقاضوں کے حوالے سے گفتگو سے ثقافتی ترقی کے حوالے سے نئی تجاویز اور امکانات سے ایک روشن پاکستان کی اُمید بندھی ہے۔
جو کام کرتا ہے وہ غلطیاں بھی کرتا ہے کیوں کہ انسان جو ہے اس کی ایک حد ہے، پیمانہ ہے اور استطاعت کا احاطہ بھی متعین ہے۔ مجھے اس کانفرنس میں کوئی غلطی یا کمی بیشی نظر نہیں آئی۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو احمد شاہ سے اعتراضات بھی ہوں کیوں کہ ہمارے درمیان فرشتے بھی تو موجود ہیں جو ہر طرح کی انسانی خامیوں سے پاک صرف دوسروں کی کوتاہیوں کی نشاندہی پر فائز ہیں۔ کھیت کے پچانوے فیصد حصے پر پھیلی ہریالی چھوڑ کر پانچ فیصد خشکی اور کیچڑ کا واویلا کرنے کی بجائے آئیے اس حصے کو بھی سرسبز کرنے کی تدبیر کریں۔
میں پنجاب کی طرف سے کراچی آرٹس کونسل اور احمد شاہ کے لئے محبتوں، دعائوں اور اپنائیت بھرے لفظوں کا گلدستہ پیش کرتے ہوئے بتانا چاہتی ہوں کہ آپ کی کاوش ملک میں ہم آہنگی، روشنی خیالی اور رواداری کی سمت سفر کا آغاز ثابت ہو گی۔ معاشروں کو نظریاتی اساس فراہم کرنے والے دانش ور اور ادیب ایک نئے عہد نامے کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔ اب وہ خاموش تماشائی اور ذات سے مکالمے کی بجائے نئی نسل کی تربیت کا سامان کریں گے۔ حکومت معاشی حوالے سے کل کے پاکستان کو خود مختار بنانے کی جستجو میں ہے۔ دانش ور اسے اخلاقی اور سماجی حوالے سے اعلیٰ قدروں کا امین بنائیں گے جس کا ہر فرد معتبر اور خوشحال ہو گا جس میں کسی بھی حوالے سے استحصال کرنے والے کو پذیرائی حاصل نہیں ہو گی۔ ادب و ثقافت زندگی کے مثبت پہلو ہیں۔ کانفرنسوں کے ذریعے جہاں صوبوں کے درمیان حائل رکاوٹیں کم ہوتی ہیں وہیں سنجیدہ معاملات اور مسائل کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کیوں کہ آج کا ادیب اپنی تحریر کو آئینہ بنا کر سماجی مسائل کی جھلک بھی دکھاتا ہے اور ان کے ازالے کی طرف رہنمائی بھی کرتا ہے۔ ایک آئینہ ذات کے اندر بھی ہوتا ہے کبھی کبھی اس میں جھانک کر اپنا محاسبہ بھی کر لینا چاہئے۔ وقت عمل اور خیر کی دستک دے رہا ہے۔ آئیے سفر آغاز کریں۔




.
تازہ ترین