• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2016جانے سے پہلے ہمارے بہت سے قیمتی ہیرے چھین کر لے جارہا ہے، انقلابی دنیا میں چے گویرا کے ساتھ جس شخص کا نام برابر لیا جاتا رہا اور جس نے امریکہ کے ایک کونے میں چھوٹے سے ملک کے ذریعے، امریکہ کے ہر طرح پےدرپے حملوں اور سی آئی اے کی چھ سو سے زائد سازشوں کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ ناکام بنایا، 32؍سال کا سگار چیمپئن داڑھی رکھے ہوئے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا ’’سوشلزم یا موت‘‘8 بچوں کا باپ فیڈل کاسترو آخری مرتبہ 13؍اگست 2016 کو عوام کے سامنے آیا اور کہا میں اپنی مرضی کے وقت اپنی زمین پر ہی موت کو گلے لگائوں گا۔
کاسترو کے آگے بڑھنے سے پہلے، کیوبا، امریکہ کی ایک کالونی تھا، جہاں ہرطرح کی منشیات، اسمگلنگ اور جوا خانے تھے جہاں امریکی عیش پرست اپنی ہوس کو پورا کرنے کیلئے آتے جاتے تھے، کاسترو کا خیال تھا، (بالکل ہماری طرح) کہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے، اپنے علاقے کی قسمت بدلی جاسکتی ہے، کاسترو نے پیسہ پیسہ جوڑ کر ایک پرانی کشتی خریدی اور دنیا بدلنے کا خواب دیکھنے والے چے گویرا کے ساتھ میکسیکو سے مشرقی کیوبا پہنچے اور 37؍سال کی عمر میں جب مسلح دستوں اور لڑکوں کے ساتھ کیوبا میں پہنچے تو سارا کیوبا سڑکوں پر انقلاب زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا، امریکہ نے غصے میں آ کر کیوبا کو تیل دینا اور کیوبا سے چینی خریدنا بند کردی، یہاں پہلی دفعہ سوویت یونین مدد کیلئے سامنے آیا، اب کاسترو نے ہمت پکڑی، انگولا، موزمبیق کے ساتھ ساتھ نیلسن منڈیلا کی تحریک کا ایسے ساتھ دیا کہ اپنی ساری فنی اور فوجی امداد کی پیشکش کی، یہیں میں آپ کو یاد دلائوں کہ پاکستان میں جب شدید زلزلہ آیا تھا، اس وقت کیوبا کے تقریباً دو سو ڈاکٹر آزاد کشمیر میں بحالی میں مدد کرنے کیلئے آئے تھے، ویسے تو دنیا بھر کے رضاکار موجود تھے مگر کیوبا کے خواتین اور مردوں پر مشتمل ڈاکٹروں نے کیا کمال کر کھایا، انہوں نے بےگھر لوگوں کے گود میں کھیلتے بچوں کی پوٹیاں صاف کیں، منہ دھلائے، دوائیاں اور کھانے اپنے ہاتھ سے کھلائے، ایک ماہ بعد جب وہ اپنے ملک واپس جا رہے تھے جن کی انہوں نے خدمت کی تھی وہ بھی رو رہے تھے اور تمام ڈاکٹرز بھی رو رہے تھے، کاسترو نے اسی زمانے میں ایک ہزار پاکستانی نوجوانوں کو ڈاکٹر بننے کیلئے اپنے ملک آنے اور پڑھنے کی دعوت دی، مجھے یاد ہے 1996میں چلی کے زلزلے کے دوران بھی کیوبا نے بہت مدد کی تھی، الجزائر کی تحریک آزادی میں بھی مدد کی اور یاد کریں 1991 میں نیلسن منڈیلا نے کاسترو کا استقبال کتنے جوش کے ساتھ کیا تھا، اسی جذبے نے جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کو سرے سے نابود کردیا تھا، امریکہ نے بلاکیڈ کیا تو کاسترو نے کیوبا کو ایسے خودکفیل بنایا کہ ہیوگو شاویز، جو کاسترو کو اپنے باپ کی سی عزت دیتا تھا، اس نے بھی کیوبا سے تعلیم اور صحت کے میدان میں مدد مانگی اور حالات کو بدلا۔
اپنی حکومت کے سارے عہد میں کاسترو نے اپنے آپ کو بیسویں صدی کے رہنمائوں مثلاً ’’لینن، ماوزے تنگ اور ہوچی من کی صف میں لاکھڑا کیا… امریکہ نے بھی حد کردی کہ کاسترو کو مارنے اور نقصان پہنچانے کیلئے چھ سو سے زائد مرتبہ سازشیں کیں اور حملہ آور ہوئے مگر اس کی دو اہم مراعات کے باعث سارا کیوبا، اس کو نہ صرف پسند کرتا تھا، بلکہ ایسے تمام حملوں کو ناکام بنایا، کاسترو نے کیوبا کی پوری قوم کیلئے تاحیات فری میڈیکل ایڈ اور 18؍سال کی عمر تک فری تعلیم کا انتظام کیا تھا۔ ہمارے ملک کی طرح اوپر، اوپر سے نہیں بلکہ غریب امیر سب کیلئے یہ سہولتیں تھیں۔‘‘
ہوانا کے سگار اتنے مشہور ہیں کہ جو بھی سیاسی یا سرکاری شخص امریکہ یا یورپ جاتا، وہ ہوانا کے سگار، بھٹو صاحب کیلئے لاتا تھا، امریکہ کے موجودہ صدر اوباما نے اس پردے کو ہٹایا جو امریکہ اور کیوبا کے درمیان موجود تھا، اوباما کے دورے کے باعث، دونوں ملکوں نے بہتر تعلقات بنانے کیلئے سفارت خانے کھولے، پاکستان نے بھی کیوبا میں اپنا سفارت خانہ قائم کیا اور میڈیکل کی تعلیم کیلئے کچھ طلبا کو وہاں بھیجا، یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ایک طرف ہوانا اور پورے کیوبا میں صدمے کا ماحول تھا جبکہ فلوریڈا میں وہ لوگ جشن منا رہے تھے جو کہ انقلاب کے بعد فلوریڈا چلے گئے تھے، امریکہ نے ان لوگوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور فوراً امریکی شہریت بھی دی۔
ہمارے ملک میں تو ایک حکومت ختم ہونے کا مطلب لیا جاتا ہے کہ اس کی تمام اصلاحات، ترجیحات اور منصوبے ترک، اب نئے سرے سے سب کچھ شروع کیا جاتا ہے، جبکہ کیوبا میں اعلان کردیا گیا ہے کہ تمام انتظامات، کاسترو کی تعلیمات اور آرڈر کے مطابق چلیں گے، کاسترو نے آپریشن کے بعد اپنے چھوٹے بھائی راول کو اختیارات دیدیئے تھے، ہر چند وہ بھی 82؍سال کے ہوگئے ہیں اور انہوں نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ بھی 2018میں ریٹائر ہوجائیں گے مگر جو بنیادیں کاسترو نے قائم کردی ہیں، انہی پر ملک چلتا رہے گا۔
ہرچند کاسترو کی وفات پر دنیا کے بہت سے ممالک نے اظہار افسوس کیا مگر پاکستان کے حاکموں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ بھی فارن آفس کو کہہ کر دو لفظوں کا پیغام کیوبا کے عوام کے لئے جاری کردیتے، ویسے تو اسی دن وفات کے بعد، ان کی خواہش کے مطابق کرسمیٹ کردیا گیا تھا مگر ان کی باقاعدہ وفات سین ڈیاگو میں 4؍دسمبر کو ہوئی، جس میں بہت سے سربراہان مملکت شریک ہوئے، کاش ہمارے ملک سے بھی کوئی کیوبا دیکھنے کیلئے چلا جاتا۔


.
تازہ ترین