• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ قومی اداروں میں کرپشن کا بازار گرم ہے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لئے ضروری ہے کہ ادارے نہ صرف مضبوط ہوں بلکہ ان میں مکمل ہم آہنگی بھی ہو جبکہ نامزد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے عوام کا تعاون درکار ہے عوام کا تعاون کس قسم کا چاہئے یہ سمجھ سے باہر ہے۔
حکمرانوں میں سے کسی اہم فرد نے کہا کہ کرپشن ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ ہمارا کوئی کرپشن اسکینڈل نہیں۔ شاید کرپشن کسی اور دنیا میں ہورہی ہے۔
1948ء میں ریڈیو پاکستان کے رسالے ’’آہنگ‘‘ میں اس وقت کے ایک انسپکٹر جنرل پولیس نے لکھا کہ بدعنوان اور راشی افسر ہر محکمے میں آچکے ہیں اگر 1948ء میں کرپشن شروع ہو چکی تھی تو اب 2016ء میں گلہ کس بات کا؟ کرپشن کے ننھے پودے کو آخر تناور درخت تو بننا تھا سو وہ بن گیا۔ کبھی کسی نے اس طرف سوچا کہ اس لاہور کو اور پاکستان کے دیگر شہروں میں 1947ء میں پٹواریوں نے کس طرح لوٹا؟ کس طرح اپنے نام زمینیں الاٹ کرائیں۔ پھر وہ سیاست اور کاروبار میں بڑے نام بن گئے۔ اب تیسری نسل کے بعد جو ان کی نسلیں شروع ہورہی ہیں وہ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ہم خاندانی امیر ہیں۔ پھر کس نے کسی کے باپ دادا تک جانا ہے؟
بجا طور پر اس حکومتی رکن نے درست کہا کہ کرپشن تو ہوتی رہے گی۔ یعنی دوسرے الفاظ میں بھئی شور کیوں مچا رہے ہو۔ شور صرف وہی مچا رہے ہیں جو کرپشن کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے یا جن کو مواقع میسر نہیں یا پھر جن کے دلوں میں ابھی اسلام کی روشنی ہے۔ چلیں چھوڑیں کرپشن کو۔ عذاب الٰہی اور قبر کی باتیں بھی اب رسمی رہ گئی ہیں۔ اب تو لوگ قبرستانوں میں قبروں پر بیٹھ کر بھی کاروبار کی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ ادھر مردے کو دفنایا جارہا ہوتا ہے اُدھر موبائل فون پر کاروبار چل رہا ہوتا ہے۔ جس قوم نے قبرستانوں کو گرا کر مکان اور دوکانیں بنا لیں اور جو لوگ ہائوسنگ سوسائٹیوں والوں سے فی قبر پیسے لے کر اپنے بڑوں کی قبریں گرانے کی اجازت دے دیں اس قوم سے کرپشن کی توقع نہ کرنا بالکل بے وقوفی ہے۔
اقدار، اچھی روایات، رکھ رکھائو، ادب، آداب ایک چڑیا تھی جو کب کی اس ملک سے اڑ چکی ہے۔ اب تو اس ملک پر ہر برائی کی نحوست نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں اور لوگ اس نحوست کے مزے لے رہے ہیں اور نحوست زدہ لوگ ہر جگہ پھر رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست میں وہ لوگ آگئے جنہوں نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی اور سیاست نے انہیں نام نہاد ایلیٹ کلاس میں پہنچا دیا۔ لاہوری سیاست دان اپنی تہذیب کو چھوڑ نہیں سکتے اور غیر ملکی تہذیب بھی بڑی پسند ہے۔ باہر کے ممالک کے لوگوں سے بھی بہت متاثر ہیں۔ جائیں تو جائیں۔ چنانچہ پھر انگریزوں کے اسٹائل کے کپڑے اور ٹوپیاں پہن کر دل کو خوش کرلیا جاتا تھا۔ اپنی حاکمیت کا مزہ لیا جاتا ہے اور محکوم قوم کو ان سے وصول کردہ ٹیکسوں سے ایک دو ٹیوب ویل لگوا کر اس پر اپنا نام لکھ دیا جاتا ہے۔ ٹیوب ویل لگانا، گلیاں پکی کرانا، صاف پانی مہیا کرنا، اسپتال بنانا، اصلی ادویات فراہم کرنا، خالص دودھ فراہم کرنا، معیاری تعلیمی ادارے مہیا کرنا کیا یہ قوم پر آپ حکمرانوں کا احسان ہے یا فرض؟ آپ انتہائی غربت کے مارے ہوئے لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اور عام لوگوں سے ٹیکس وصول کر کے انہی کے ٹیکسوں سے یہ لازمی سہولتیں فراہم کر کے جگہ جگہ اپنے بینرز اور پوسٹرز لگواتے ہو کہ جیسے تم نے قوم پر بہت بڑا احسان کیا ہےاور جعلی بینرز اہل محلہ کی طرف سے لگواتے ہو کہ اہل محلہ ٹیوب ویل اور اسپتال بنانے پر تمہارے شکر گزار ہیں۔ کچھ تو شرم اور حیا کرنی چاہئے۔
عوام کو صحت کی سہولتیں کیا ملنی ہیں ملکی اور غیر ملکی امداد پر صحت کے شعبے میں نئی نئی ایجنسیاں اور ادارے بنائے جارہے ہیں۔ بارہ لاکھ پر ایسے ڈاکٹر کو ملازم رکھا جارہا ہے جس کو بنیادی صحت کے مراکز تک کا بھی نہیں پتہ اور ایسے ایسے ممبر ہیں جن کے شعبہ صحت کے لئے اپنی Consultingکے ادارے ہیں۔ پنجاب ہیلتھ انیشیٹو INITIATIVE کمپنی، پنجاب پبلک ہیلتھ ایجنسی، چیف منسٹر ہیلتھ روڈ میپ کیا شعبہ صحت میں پہلےشعبے کم تھے جو نئے بنائے جارہے ہیں۔ کن کن لوگوں کو کس طرح خوش کیا جارہا ہے۔ تاریخ ایک دن ضروری لکھے گی، بھاری بھاری تنخواہوں پر صحت کے شعبے میں کن لوگوں کو کیوں رکھا جارہا ہے؟ کبھی تو یہ چیزیں سامنے آئیگی۔ صحت کی این جی اوز اور Consulting کےادارے چلانے والے آپ کے ممبر ہیں۔ ایسی ایسی کمپنیاں بنائی جارہی ہیں کہ آپ کو کیا بتائیں؟ بلاضرورت ادارے اور ایجنسیاں بنانا بھی کرپشن ہے۔چھوٹے میاں صاحب آپ ہماری باتوں کا برا مان جاتے ہیں یقین کریں جو لوگ آپ کے ہر اقدام کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں یہ آپ کے دوست نہیں، اقتدار تو آنی جانی چیز ہے آپ ایک دن خود یہ سنیں گے کہ آپ کے بے شمار اقدامات کے خلاف یہ باتیں کررہے ہوں گے۔آپ ترکی والوں کو ہمارے ہیلتھ سسٹم کو ٹھیک کرانے کے لئے لا رہے ہیں۔ برا نہ منائیں، ترکی میں صحت کا بجٹ، عوام کی مجموعی صحت کا گراف، وہاں کے حالات، کھانے پینے کی عادات، ماحول اور صحت کے مسائل ہم سو فیصد مختلف ہیں۔ ان کو شعبہ صحت میں ان مسائل کا سامنا نہیں جن مسائل کا سامنا ہمیں ہے جس قوم کو خالص دودھ اور اصلی ادویات نہ ملتی ہوں اور غربت عروج پر ہو۔ آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہو وہاں پر ترکی کے ماہرین صحت کیا کریں گے؟ 70 برس میں ہم نے یہ کمایا کہ ہمارا صحت کا نظام اب ترکی والے ٹھیک کررہے ہیں اور دوسری جانب آپ شعبہ صحت میں کئی مزید ادارے قائم کرتے چلے جارہے ہیں۔ پھر ڈی جی ہیلتھ کے اندر بے شمار دفاتر کوئی ٹی بی کنٹرول، کوئی ایڈز کنٹرول، کوئی ملیریا کنٹرول، کوئی ڈینگی اسکواڈ اگر ہم شعبہ صحت کے اندر اداروں کی لسٹ لکھنا شروع کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ اتنے شعبوں کے ہوتے ہوئے بھی عوام کو صحت کی سہو لتیں نہیں مل رہیں اور مریض بھی خوار ہورہے ہیں۔ وائی ڈی اے آپ کے قابو میں نہیں۔ اسپتالوں میں پھر ہڑتالیں جاری ہیں۔ آپ ترکی والوں سے بہت متاثر ہیں ذرا ترکی میں اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ وہاں شعبہ صحت میں کتنے ادارے کام کررہے ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ خواجہ سلمان رفیق وزیر صحت شعبہ شیلائرڈہیلتھ کیئر و میڈیکل ایجوکیشن اور خواجہ عمران نذیر، صحت وزیر صحت پرائمیر ہیلتھ اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پربہت کام کررہے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے وزیراعلیٰ ان دونوں وزراء صحت کو پوری طرح کام کرنے کا موقع دیں اور ترکی والوں کو کم شامل کریں۔بقول حبیب جالب؎
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے



.
تازہ ترین