• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غربِ اردن میں یہودی آبادکاری کے اسرائیلی اقدامات کیخلاف قرارداد کی منظوری اور امریکہ کی طرف سے اس قرارداد کا ویٹو نہ کیا جانا ایک بڑا واقعہ ہے اور اسے اسرائیل کیخلاف عالمی ادارے میں کسی بھی کارروائی کو روکنے کی امریکی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ کہا جاسکتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہائٹ ہائوس، جس کی طرف سے ماضی میں متعدد مواقع پر آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کے اشارے آچکے ہیں، ان مظلوم فلسطینی عوام کے زندہ رہنے کے حق کیلئے موثر کردار ادا کرے جن کی سرزمین پر بڑی طاقتوں نے اسرائیلی مملکت قائم کرکے قلبِ عرب میں جنگوں اور عدم استحکام کا بیج تو بویا ہی ہے، بعداز خرابی بسیار قائم ہونے والی فلسطینی اتھارٹی میں تباہی پھیلا نے اور یہودیوں کی آبادکاری کے ذریعے آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی چھوٹ بھی دے رکھی ہے۔ عالمی ادارے میں متعدد بار اسرائیلی اقدامات کے خلاف قراردادیں پیش کی گئیں مگر امریکہ ان قراردادوں کو ویٹو کرتا رہا ہے۔ اس بار فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے مطالبے پر مبنی مصری قرارداد پر جمعرات کی شب رائے شماری ہونا تھی۔ اگرچہ اس سے پہلے ہی اسرائیل اور نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دبائو پر محرک ملک پیچھے ہٹ گیا مگر نیوزی لینڈ، سینیگال، ملائیشیا اور وینزویلا نے 15رکنی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کرکے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب 14ووٹوں سے منظور کرالی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دبائو کے تحت مصری قرارداد کے روکے جانے کے بعد پس پردہ سفارتی کوششوں کے نتیجے میں یہ ممکن ہوا کہ امریکہ نے قرارداد کی حمایت تو نہیں کی مگر اسے ویٹو کرنے سے بھی اجتناب کیا۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں فلسطینی ریاست کے قیام کی جس خواہش کا اظہار کیا تھا، کیا ہی اچھا ہوکہ وہ اس کیلئے کھل کر کام کریں اور ایسے اقدامات کی حوصلہ شکنی کریں جن سے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں رکاوٹ آنے کے خدشات ہوں۔


.
تازہ ترین