• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل راحیل شریف، آرمی چیف کے عہدے سے رخصت بھی نہیں ہوئے تھے، اُس وقت سے یہ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اُنہیں سعودی عرب کی قیادت میں قائم 39 اسلامی ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد کا سربراہ بنادیا جائے گا جس کی پیشکش جنرل راحیل شریف کو اُس وقت کی گئی تھی جب وہ پاکستان آرمی کے سربراہ تھے اور وزیراعظم نواز شریف کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر انہوں نے سعودی فرمانرواں شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی تھی۔ بالاخر یہ افواہیں اُس وقت سچ ثابت ہوئیں جب گزشتہ دنوں جنرل راحیل شریف کے سعودی عرب میں قیام کے دوران یہ خبریں منظر عام پر آئیں کہ انہوں نے باضابطہ طور پر اسلامی افواج کی کمان سنبھال لی ہے۔ ان افواہوں کو مزید تقویت اُس وقت ملی جب وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی ٹی وی کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی افواج کا سپہ سالار بنانے کا فیصلہ حکومت پاکستان کے ساتھ مشاورت سے کیا گیا ہے جس میں سیاسی و عسکری قیادت کی رضامندی شامل تھی۔ ان کے مطابق معاہدے کو چند روز قبل ہی حتمی شکل دی گئی ہے تاہم بعد میں وزیر دفاع اور حکومتی ترجمان کے بیانات میں تضاد کے باعث نئے تنازعات نے جنم لیا اور میڈیا پر یہ بحث چھڑگئی کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کرنا چاہئے یا نہیں؟ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے بھی جنرل راحیل شریف کو اسلامی افواج کا سربراہ مقرر کئے جانے کی خبروں پر وزیر دفاع خواجہ آصف سے یہ وضاحت طلب کی ہے کہ راحیل شریف کی تقرری کے معاملے میں وفاقی حکومت سے این او سی لیا گیا ہے یا نہیں۔یاد رہے کہ اسلامی ممالک میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے دسمبر 2015ء میں پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا جس میں ابتدائی طور پر 34 اسلامی ممالک شامل تھے تاہم بعد ازاں ان ممالک کی تعداد 39 ہوگئی جن میں مصر، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے عرب ممالک کے علاوہ پاکستان، ترکی، ملائیشیا اور مراکش سمیت کئی افریقی ممالک بھی شامل ہیں مگر ایران، عراق اور شام کو اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا۔ مغربی ممالک کے فوجی اتحاد نیٹو کی طرز پر قائم کئے گئے اسلامی فوجی اتحاد کا مقصد اسلامی ممالک میں دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنانا ہے جس کے سربراہ کی حیثیت نیٹو افواج کے سربراہ کے مساوی ہے جبکہ اُنہیں تنخواہ اور مراعات بھی نیٹو سربراہ سے زیادہ حاصل ہوں گی۔ پاکستان ابتداء میں اسلامی اتحادی افواج میں شمولیت سے گریزاں تھا لیکن بعد میں وزیراعظم نواز شریف نے فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی تصدیق کرتے ہوئے وضاحت کی کہ پاکستان اسلامی فوج کا حصہ ہوتے ہوئے اپنی فوج بیرون ملک نہیں بھیجے گا۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ جنرل راحیل شریف اپنی ریٹائرمنٹ کے تقریباً ایک ماہ بعد گزشتہ دنوں جب سعودی حکومت کی خصوصی دعوت پر اچانک سعودی عرب گئے تو اُن کے دورے کو غیر معمولی نوعیت کا دورہ قرار دیا گیا جس کی تشہیر بھی نہیں کی گئی جبکہ سعودی عرب پہنچنے پر اُن کا پہلے کے مقابلے میں زیادہ پرتپاک استقبال کیا گیا اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز منظر عام پر آئیں جس میں جنرل راحیل شریف کو خصوصی پروٹوکول میں عمرہ کرتے دکھایا گیا جہاں اُنہیں دیکھ کر لوگوں نے ’’راحیل شریف زندہ باد‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں نماز جمعہ کے خطبے کے اختتام پر امام کعبہ نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’پاک سعودی دوستی زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے جس کے بعد اسلامی فوجی اتحاد کے وکی پیڈیا پیج پر جنرل راحیل شریف کو اتحادی فوج کا سربراہ ظاہر کیا گیا لیکن اس کے باوجود حکومت پاکستان اور جنرل راحیل شریف کی جانب سے کوئی واضح موقف سامنے نہ آنے پر نئے تنازعات اور بحث و مباحثے نے جنم لیا کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کرنا چاہئے یا نہیں؟تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اس سے قبل سعودی عرب اور ایران کے مابین اختلافات کم کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے تاہم جنرل راحیل شریف کے اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کے بعد نہ صرف خطے میں پاکستان کی غیر جانبداری متاثر ہوگی بلکہ خطے کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر بھی منفی اثرات پڑسکتے ہیں کیونکہ اسلامی فوجی اتحاد میں پڑوسی ملک ایران شامل نہیں جبکہ خطے کی موجودہ صورتحال میں سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات میں تنائو بڑھتا جارہا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ ماہ قبل ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں ’’را‘‘ ایجنٹوں کی موجودگی اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی ایران کے راستے پاکستان میں داخلے کے باعث پاک ایران تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے اور ایران کا جھکائو بھارت کی طرف ہوگیا تھا لیکن جب امریکہ نے بھارت سے اُس کے فضائی اڈے استعمال کرنے کا معاہدہ کیا تو ایران نے معاہدے پر ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ ایران کو یہ خدشہ ہے کہ امریکہ بھارتی فضائی اڈوں کو ایران کے خلاف بھی استعمال کرسکتا ہے جس کے بعد پاکستان کی جانب سے ایران کے ساتھ کچھ مثبت اقدامات کئے گئے اور پاک ایران تعلقات میں بہتری آئی۔موجودہ صورتحال میں جب اسلامی ممالک منقسم ہیں، اسلامی فوجی اتحاد مثبت پیشرفت ہے جس کے سربراہ کیلئے جنرل راحیل شریف کا انتخاب کرنا پاکستان کیلئے باعث فخر ہے تاہم جنرل راحیل شریف کے سعودی عرب کی قیادت میں قائم فوجی اتحاد کی سربراہی سنبھالنے سے پڑوسی اسلامی ملک میں یہ منفی تاثر ابھرسکتا ہے کہ پاکستانی جنرل کو ایسے فوجی اتحاد کی سربراہی دی گئی جس کا ایران مخالف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان اور دفتر خارجہ وقت ضائع کئے بغیر ایران کے خدشات دور کرے اور یہ منفی تاثر زائل کرے کہ اسلامی فوجی اتحاد کسی اسلامی ملک کے خلاف نہیں تاکہ حالیہ پیشرفت سے پاک ایران تعلقات متاثر نہ ہوں اور نہ ہی دشمن ملک بھارت موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکے۔
جنرل راحیل شریف جب پاک فوج کے سربراہ تھے تو اُن کا براہ راست تعلق وزیراعظم سے ہوتا تھا اور وہ اُنہی کو رپورٹ کرتے تھے تاہم اب سعودی عرب کی قیادت میں قائم اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے اُن کا براہ راست تعلق سعودی فرمانرواں سے ہوگا۔ میں جنرل راحیل شریف کی شخصیت کو جانتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے خود کو کبھی متنازع ہونے نہیںدیا، اگر وہ کسی بڑے عہدے کے خواہشمند ہوتے تو حکومت نے اُنہیں مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی تھی مگر انہوں نے یہ پیشکش قبول کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اسلامی اتحادی افواج کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل راحیل شریف کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ اتحادی افواج کو متنازع نہ ہونے دیں لیکن اگر وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے تو شاید عہدے سے سبکدوش ہونا بہتر سمجھیں۔



.
تازہ ترین