• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی پارٹیوں پر خواتین ایم پیز کی تعداد نہ بڑھانے پر جرمانوں کی سفارش

لندن (جنگ نیوز)ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ عام انتخابی امیدواروں کی کم ازکم 45فیصڈ خواتین پر مشتمل ہونے کو یقینی نہ بنانے والی سیاسی پارٹیوں پر جرمانے عائد کئے جائیں۔ویمن اینڈ ایکولٹیز کمیٹی نے کہا ہے کہ یہ حقیقت کہ موجودہ ایم پیز میں 30فیصد خواتین کی نمائندگی ایک ’’حقیقی جمہوری خسارہ‘‘ ہے۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ اگر 2020ء کے عام انتخابات کے بعد اعدادوشمار میں ’’حقیقی بہتری‘‘ نہ آئی تو لازمی طور پر قانون میں تبدیلی کی جانی چاہئے۔ حکومت نے کہا ہے کہ وہ سفارشات پر غور کررہی ہے۔ ہائوس آف کامنز میں اس وقت 195خواتین ہیں۔ کراس پارٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مساوی اداروں میں خواتین نمائندگی کی اصطلاح میں برطانیہ کا دنیا بھر میں 48واں نمبر ہے۔ خواتین برطانوی آبادی کا نصف سے زائد حصہ ہیں اور ایک ایسے وقت جب ہمیشہ سے زیادہ خواتین ملازمتیں کررہی ہیں تو اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ ہائوس آف کامنز کی نصف تعداد خواتین پر کیوں مشتمل نہیں ہونی چاہئے؟ فی الوقت صرف 30فیصد خواتین ایم پیز ہیں۔ 1997ء تک کامنز میں خواتین کی تعداد 10فیصد سے بھی کم تھی جوکہ اس سال کے عام انتخابات میں بڑھ کر 18فیصد ہوگئی۔ 2015ء میں ہونے والے عام انتخابات میں خواتین نمائندگی بڑھ کر 29فیصد ہوگئی جوکہ حالیہ ضمنی انتخابات کے بعد 30فیصد ہے۔ تاہم کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ اچھی پیش رفت نہیں ہے اور پارلیمنٹ کو سرگرمی کے ساتھ خواتین کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کہ وہ آئوٹ ریچ پروجیکٹس اور خواتین کی شراکت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے جمہوریت میں شریک ہوجائیں۔ کمیٹی نے مزید کہا ہے کہ بنیادی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس امرکو یقینی بنائیں کہ خواتین آگے بڑھ کر اپنی نمائندگی کریں اور انہیں ایسی پوزیشنز پر لایا جائے جہاں سے وہ اپنی سیٹیں جیت سکیں۔ ہائوس آف کامنز لائبریری کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2015کے انتخابات میں تمام بڑی پارٹیوں کے امیدواروں میں خواتین کی تعداد 50فیصد سے کم تھی۔ ان میں سے ایس این پی 38فیصد، گرین پارٹی 38فیصد، لیبر 34فیصد، کنزرویٹوز 26فیصد، لبرل ڈیمو کریٹس 26فیصد اور یوکے آئی پی 13فیصد امیدار تھے۔
تازہ ترین