• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے اکثر یہ سنا ہوگا کہ لکھا ہوا لفظ ضائع نہیں جاتا۔ میں اس سے ایک قدم آگے جا کر کہتا ہوں کہ لکھا ہوا لفظ بعض اوقات حوالہ بن جاتا ہے اس لئے تاریخی و واقعاتی حقائق اور قومی راہنمائوں کے بارے میں لکھنے سے پہلے تھوڑی سی تحقیق کر لینا اور حقائق کی تصدیق کر لینا نہ صرف ہمارا قومی فرض ہے بلکہ دینی تقاضا بھی ہے۔ میرا ذاتی تجربہ شاہد ہے کہ آج جو کچھ لکھا جارہا ہے یہ پچاس یا سو سال بعد حوالہ بن جائے گا۔ اس موضوع پر ان شاء اللہ پھر کبھی کہ تحقیق کی صعوبت کے دوران میں نے آج سے 65/70سال پہلے کے اخبارات میں کیا پڑھا اور ان میں سے بعض معاملات کی مزید تصدیق کرنا چاہی تو وہ جھوٹ نکلا۔ کچھ یہ ہمارے مزاج کا حصہ بھی ہے کہ ہمیں افسانوی باتیں، شوشے اور بے بنیاد انکشافات اچھے لگتے ہیں اور ہم انہیں مرچ مصالحہ لگا کر خوب اچھالتے ہیں۔ ایک حالیہ تجربہ ملاحظہ فرمایئے کہ کسی صاحب نے وکی پیڈیا پہ یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ قائداعظم نے 9اگست 1947 کو لاہور کے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو بلایا اور اسے پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کا کہا۔ جگن ناتھ آزاد نے ترانہ لکھا، قائداعظم نے اس کی منظوری دی اور 14-15 اگست 1947کی نصف شب جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو وہ ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ میں نے اس افسانے کی مکمل تحقیق پر ایک ماہ صرف کیا، ریڈیو پاکستان، کابینہ ڈویژن کے ریکارڈ، اخبارات اور قائداعظم کے مرحوم اے ڈی سی کیپٹن عطا ربانی سے تحقیق کرنے کے بعد جب مجھے یقین ہوگیا کہ یہ شوشہ نہ ہی صرف بے بنیاد ہے پھر انیسویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے تو میں نے تاریخی ریکارڈ کی درستی کے لئے بہت سے اخبارات میں مضامین لکھے کیونکہ معتبر کالم نگار سوچے سمجھے بغیر جگن ناتھ آزاد کو قومی ترانے کا خالق، قائداعظم کا دوست اور نہ جانے کیا کیا لکھ رہے تھے۔ ان کا مقصد قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنا تھا اور میرا مقصد تاریخی ریکارڈ کی درستی تھی۔ ان حضرات کو خیال تک نہ آیا کہ مسلم لیگ، قائداعظم اور پاکستان کے مخالف اخبار ’’جئے ہند‘‘ لاہور کا ایک 26/27الہ نوجوان ملازم جگن ناتھ بمبئی اور دہلی میں رہنے والے 75/76سالہ قائداعظم کا دوست کیسے ہوسکتا ہے؟ میری بار بار کی تردید کے باوجود اس جھوٹ کا تکرار جاری ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم سچ کی نسبت جھوٹ سے زیادہ پیار کرتے ہیں کیونکہ جھوٹ میں سنسنی خیزی کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہ خبر پڑھ کر مجھے صدمہ ہوا ہے کہ خان رضوانی کے فرزند جمشید رضوانی نے جگن ناتھ آزاد پر ایم اے کا مقالہ لکھ دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد نے قائداعظم کی فرمائش پر پاکستان کا ترانہ لکھا۔ یہ مقالہ کتابی صورت میں جموں کشمیر سے چھپ بھی گیا ہے۔ اس طرح ڈھٹائی سے تاریخ پاکستان مسخ کی جارہی ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اب آپ ہی بتایئے اس مرض کا کیا علاج کیا جائے۔ میرا بار بار کا تجربہ ہے کہ ہمارے قلم کار سینکڑوں بار چھپی ہوئی وضاحتیں اور تردیدیں نہیں پڑھتے اور سنی سنائی سنسنی خیز افسانوی باتوں کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک اور جھوٹ بھی خاصی شہرت پا چکا ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے چند بڑے اخبارات میں معتبر کالم نگاروں کو اس جھوٹ کا اسیر پایا تو افسوس ہوا۔ ان معروف کالم نگاروں میں ہمارے قابل احترام منصور آفاق صاحب بھی شامل ہیں جو اسی اخبار میں لکھتے ہیں جس میں نصف درجن بار وضاحت کر چکا ہوں کہ یہ بات لیاقت علی خان مخالف لابی نے پھیلائی ہے اوربے بنیاد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گیارہ ستمبر 1948 کو جب قائداعظم کو زیارت سے کراچی لایا گیا تو وزیراعظم لیاقت علی خان ہوائی اڈے پر موجود نہیں تھے اور وہ فرانس کے سفارت خانے کی تقریب میں مصروف تھے۔ میں کئی بار وضاحت کر چکا ہوں کہ لیاقت علی خان ہوائی اڈے پر آئے تھے۔ وہ قائداعظم کی خراب ایمبولینس کے پاس دوسری ایمبولینس آنے تک کھڑے رہے اورانہیں گورنر جنرل ہائوس میں ڈاکٹروں کی نگرانی میں چھوڑ کر کچھ دیر کے لئے گئے اور پھر واپس آگئے۔ میں نے ان سارے حقائق کی تصدیق قائداعظم کے اے ڈی سی کیپٹن (بعدازاں بریگیڈیئر) نور حسین مرحوم سے کی تھی جوزیارت سے لے کر لحدتک قائداعظم کے ساتھ رہے۔ بریگیڈیئر نور حسین نے ان افواہوں کو رد کرنے کےلئے ’’دی نیوز‘‘ میں مضامین بھی لکھے جو میری کتاب ’’اقبال، جناح اور پاکستان‘‘ میں بطور ضمیمہ جات شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مادر ملت کے حکم کے تحت قائداعظم کی کراچی آمد کو ’’پرائیویٹ‘‘ رکھا گیا تھا اور اس کی اطلاع کابینہ یا انتظامیہ کو نہیں دی گئی تھی۔ اس دور میں کراچی میں دستیاب چند ایمبولینسوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد گورنر جنرل کے انگریز ملٹری سیکرٹری کرنل نولز نے ہی سب سے اچھی ایمبولینس کا انتخاب کیا تھا جو راستے میں خراب ہوگئی۔ بریگیڈیئر صاحب نے منیراحمد منیر کو بھی ذاتی انٹرویو میں صورت حال کی وضاحت کی تھی اور یہ انٹرویو ’’دی گریٹ لیڈر‘‘ میں شامل ہے۔ قائداعظم بعداز دوپہر کراچی پہنچے اور رات ساڑھے دس بجے ان کا انتقال ہوا۔ قائداعظم کی موت فطری موت تھی باقی سب افسانے ہیں۔ خود قائداعظم نے زیارت ہی میں موت کے بڑھتے ہاتھوں کو محسوس کرلیا تھا اور گیارہ ستمبر کو اپنے اے ڈی سی لیفٹیننٹ مظہر سے کہا تھا کہ اب میں زندہ نہیں رہوں گا۔ غلطی ہائے مضامین کی فہرست قدرے طویل ہے۔ ایک مصنف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ‘‘ والی مشہور نظم غلام نبی نے لکھی تھی۔ سارے جہان کو علم ہے کہ یہ نظم جس کا ایک شعر مسلم لیگ کے جلسے جلوسوں میں نعرہ بن گیا تھا سیالکوٹ کے اصغر سودائی نے لکھی تھی۔
کالم کا دامن محدود ہوتا ہے۔ بہت سی باتیں رہ گئیں۔ مختصر یہ کہ ملکی تاریخ اور اپنی قومی شخصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے احتیاط اور تحقیق ضروری ہے کیونکہ آج کا لکھا ہوا مستقبل میں حوالہ بن جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف قومی تاریخ مسخ ہوتی ہے بلکہ نوجوان بھی بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں۔

.
تازہ ترین