• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ) 
:4 صرف کیمرہ کو طاقت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کیمرہ ڈومنیٹڈ میڈیا ہو گیا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ جس کے پاس کیمرہ نہیں شاید وہ صحافی نہیں یا اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں، جبکہ ایک پروفیشنل رپورٹر یا ایک پریزینٹر کی حیثیت سے اگر کیمرہ آپ پر ہے، تو آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ آپ جتنا جلدی ممکن ہو، کیمرہ سے جان چھڑائیں، کیوں کہ جتنی دیر آپ کیمرہ پر رہیں گے، آپ کی شخصیت ایکسپوز ہونا شروع ہو جاتی ہے، آپ کی کمزوریاں اور کوتاہیاں لوگوں پر آشکار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ پاکستانی ٹی وی میں کیمرہ پر آنے والے رپورٹرز کے ہاتھ میں کبھی نوٹس نہیں ہوتے، حالانکہ نوٹس ایک رپورٹر کی خبر کو رپورٹ کرنے میں بہترین مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ بغیر نوٹس کے بولے چلے جانے کی روش نے بھی عام ناظر کو نیوز چینل سے دور کیا ہے۔:5اینکرپرسن، پریزینٹر اور صحافی میں فرق نہیں کیا جاتا۔ پاکستانی صحافت کو ایک بہت بڑا چیلنج یہ بھی درپیش ہے کہ اسے اب فوری طور پر اینکر پرسن، پریزینٹر اور صحافی کی کیٹیگری کو الگ کرنا ہوگا۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک صاحب جن کا صحافت سے دور دراز سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا، جس نے کبھی زندگی میں بنیادی رپورٹنگ نہیں کی ہوتی، ٹی وی اسکرین پر دوچار پروگرام پریزنٹ کر کے خود کو صحافی سمجھنے لگتا ہے، اور قوم بھی اسے صحافی گردان رہی ہوتی ہے۔ یہی وہ نام نہاد صحافی ہوتا ہے جو مرنے والے کے لواحقین سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں، اور اس سے جو بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں وہ سب اہلِ صحافت کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے صحافیوں کو اب بہت جلد یہ کیٹیگریز بنانا ہوں گی کہ آیا کوئی شخص صحافی ہے، یا اینکر، یا پریزنٹر۔:6افواہوں کو خبر کا درجہ دینا عام ہے۔ یہ اب ایک عام معمول بن گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک افواہ کچھ ہی دیر میں نیوز چینل کی اسکرین پر خبر کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ لوگ جب کسی صحافی کو سوشل میڈیا پر فالو کرتے ہیں تو وہ آپ سے کسی نیوز کی توقع کر رہے ہوتے ہیں، افواہ کی نہیں۔ اور اگر اس کے بدلے انہیں ایک افواہ ملے تو وہ بدظن ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا افواہ کو نیوز چینل کی خبر میں بدلنے کے رجحان کو ختم کرنا ہو گا۔:7رپورٹرز کے فرائض اور ضابطے متعین کرنے ہوں گے۔ لائیو نیوز کے کلچر کے بعد نیوز رومز کے اندر اب لازماً یہ کیٹیگریز بننی چاہئیں کہ کون سا رپورٹر لائیو نیوز کور کرے گا اور کون نہیں، کون سا رپورٹر لائیو بیپر دے گا اور کون نہیں، کون سا رپورٹر حساس رپورٹنگ اور ایشوز کو کور کرے گا اور کون سا نہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب ہر صحافی کو بذات خود صحافتی ضابطوں اور اقدار کی پیروی کرنی ہوگی۔:8خبر بنانے کی دوڑ ختم ہونی چاہئے۔ ریٹنگ کے دور میں اب پاکستانی میڈیا اس انتہا پر پہنچ گیا ہے کہ وہ خبر کو رپورٹ کرنے کے بجائے خبر کو تخلیق کرنے پر تل گیا ہے، جو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اس خطرناک رجحان نے صحافت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ نیوز روم سے ایک رپورٹر سے یہ فرمائش کی جاتی ہے کوئی خبر لاؤ، نہیں ہے تو خبر خود بناؤ، کسی پرانی خبر میں مصالحہ لگاؤ، وغیرہ۔ خبر کو تخلیق کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں اور میڈیا منیجرز کو اپنی اس روش کو اب بدلنا ہوگا۔:9کرنٹ افیئرز میں صرف سیاست نہیں۔ ہمیں تو بیس سالوں تک استادوں نے نیوز رومز میں یہی سکھایا کہ سارا جرنلزم کرنٹ افیئر کا کھیل ہے، لیکن ہمارے ہاں نئے رجحان یہ ہیں کہ کرنٹ افیئرز صرف سیاست ہے، جو کسی طور درست نہیں۔ کرنٹ افیئرز کے سارے پروگرام صرف سیاسی بیان بازی کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں ایسے میڈیا منیجرز کے لیے ایک نئی کھڑکی بنا کر انہیں دکھانا اور سمجھانا ہوگا کہ جو کچھ ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو افیکٹ کر رہا ہے، وہی کرنٹ افیئر ہے۔ اس رجحان کو نئے سرے سے دیکھنے اور بدلنے کی ضرورت ہے۔:10’ذرائع‘ یا میڈیا ہاؤس کی خواہشات؟ ایک اور بڑا اور خطرناک رجحان جو پروان چڑھ رہا ہے، اور جسے چیلنج سمجھ کر بدلنا چاہیے، وہ ہے خواہشات کو ذرائع بنانا۔ رپورٹر ٹی وی اسکرین پر یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ ’’ذرائع کا یہ کہنا ہے‘‘، یا ’’مبصرین کا خیال ہے‘‘ حقیقت میں یہ کوئی ذرائع اور مبصرین نہیں ہوتے بلکہ یہ رپورٹر کی اور اس کے ادارے کی خواہشات ہوتی ہیں، جنہیں وہ خبر بنا کر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ ذرائع اور ’سورس‘ بہت مقدس ہیں، لیکن خواہشات کو ذرائع کہنا یا مبصر کا لبادہ اوڑھانا کسی طور قابل قبول نہیں۔ یہ وہ چیدہ چیدہ چیلینجز ہیں جن سے نبرد آزما ہو کر ہم صحافت کو اور ٹی وی اسکرین کو کسی حد تک عوام کے لیے قابل قبول بنا سکتے ہیں۔ اگر ان مسائل کی درستی کی طرف توجہ نہ دی گئی تو آزاد اور بے باک ہونے کی شہرت رکھنے والا پاکستانی میڈیا اپنا معیار، سنجیدگی اور ساکھ مکمل طور پر کھو دے گا، جس سے قومی بیانیے کی تشکیل کا واحد ذریعہ صرف سوشل میڈیا ہی رہ جائے گا۔

.
تازہ ترین