• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر انتخابی جماعت کے منشور میں یہ بات ضرور شامل ہوتی ہے کہ ہم اقتدار میں آ کر تھانہ کلچر تبدیل کریں گے۔انتخابات جیت جانے کے بعد پہلے سے تعینات پولیس افسروں کو کھڈے لائن لگا کر اپنی مرضی کے پولیس افسرسامنے لانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تھانہ کلچر تبدیل ہو گیا۔یوں چہرے بدل جاتے ہیں ،حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں لیکن تھانہ کلچر جوں کا توں رہتا ہے۔چونکہ ہمارے ہاں حکمراں لیپا پوتی ،تصنع،بناوٹ اور مصنوعی تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں اس لئےکبھی ماڈل پولیس اسٹیشن بنا کر ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی کوشش کی گئی تو کبھی پولیس قوانین بدل کر لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی۔تھانہ کلچر تبدیل کرنے کی آڑ میں ہی کچھ عرصہ قبل یہ فیصلہ کیا گیا کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کواے ایس آئی کے بجائے براہ راست سب انسپکٹر بھرتی کیا جائے تاکہ تھانہ کلچر تبدیل ہو ۔ان پڑھے لکھے ـ’’تھانیداروں‘‘نے وہ ’’ات‘‘ مچائی ہے کہ بدنام زمانہ پرانے پولیس والوں نے بھی کانوں کو ہاتھ لگا لئےہیں۔محکمہ کوئی بھی ہو،جب تک اندر سے تحریک نہ ہو،باہر سے برپا کیا گیا انقلاب دیرپا ثابت نہیں ہوتا۔مگر المیہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو دریا کی مخالف سمت تیرنے اور تھانہ کلچر تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،انہیں نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔سابقہ ڈی پی او بہاولنگر اورایکس سی پی او ملتان اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔اوراب موجودہ سی پی او ملتان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔اس شخص کا قصور یہ ہے کہ اسے اپنے محکمے میں کالی بھیڑیں پسند نہیںاور اس کا خیال ہے کہ جرائم پیشہ افراد سے تو ہم نمٹ ہی لیں گے مگر پہلے ان کی سرکوبی کی جائے جومحافظ کی وردی پہن کر قانون کے دائرے سے تجاوز کرتے ہیں۔اسی سوچ کے تحت ملتان پولیس نے چند ماہ قبل اپنے تین ’’پیٹی بھائیوں ‘‘ کو جنسی زیادتی کے مقدمہ میں گرفتار کیا ،ان کا ڈی این اے کروایا اور انہیں قانون کی عدالت میں پیش کیا۔
آئینی لحاظ سے تو پاکستان میں جمہوریت ہے اور عوام اس ملک کے اصل وارث اور مالک ہیں مگر سڑک پر ناکہ لگائے ہوئے پولیس اہلکار جن کا مقصد عوام کی خدمت ہے،وہ ان مالکان سے کرخت لہجے میں اوٹ پٹانگ سوال کرتے ہیں اور کوئی ناروا سلوک پر احتجاج کرے تو اسے کالر سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے تھانے لے جاتے ہیں اور ایسی درگت بناتے ہیں کہ ملکیت کا سب خمار اتر جاتا ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ چند روز قبل ملتان کے فوارہ چوک پر پیش آیا جب ایک پرانے ماڈل کی ایک گاڑی پر جا رہے ایک شہری رضوان کو دوٹرینی سب انسپکٹرز نے روکا ۔تحکمانہ انداز میں رضوان اور لاہور سے آئے اس کے دوست کو نیچے اترنے کو کہا گیا ،گاڑی کی تلاشی لی گئی ،کاغذات طلب کئے گئے اور جب انہوں نے اس سلوک پر احتجاج کیا تو انہیں گھسیٹ کر تھانہ چہلیک لے جایا گیا۔وہاں ان دونوں کو فرش پر اپنے قدموں میں بٹھانے کی کوشش کی گئی اور جی بھر کر تشدد کرنے کے بعد ہاتھ اوپر کر کے زنجیروں سے باندھ کر حوالات میں بند کر دیا گیا۔جیسے تیسے رہا ہونے کے بعد جب یہ لوگ اگلے دن سی پی او ملتان کے دفتر میں شکایت لیکر پہنچے تو محکمانہ انکوائری ہوئی اوریہ بات ثابت ہوگئی کہ بے قصور شہریوں سے بدسلوکی محض اپنی طاقت کی دھونس دکھانے کے لئے کی گئی ہے۔گرفتار کرنے والے سب انسپکٹرز نے یہ موقف اختیار کیا کہ انہیں ریورس گاڑی بھگانے پر حراست میں لیا گیا مگر تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ 24سال پرانی 800سی سی گاڑی ریورس بھگائی ہی نہیں جا سکتی۔چونکہ ان ٹرینی سب انسپکٹرز علی اور مہتاب کے خلاف پہلے بھی بیشمار شکایات تھیں اسلئے انہیں معطل کر کے محکمانہ کارروائی کی سفارش کی گئی تو انہوں نے اپنے دیگر بیج میٹس کے ساتھ ملکر سی پی او ملتان کے خلاف پروپیگنڈا مہم شروع کر دی۔
جو سلوک ملتان کے اس شہری کے ساتھ ہوا ،اس کا نشانہ ہر روز کئی لوگ بنتے ہیں کیونکہ ایک طرف طاقتور اور بااثرافراد کے سامنے پولیس بھیگی بلی بن جاتی ہے تو دوسری طرف کمزور اور عام آدمی کے لئے فرعونیت کا مظاہرہ کرتے دیر نہیں لگاتی۔جب کوئی وردی والا کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیںکر سکتا۔
کیونکہ اس کے خلاف کارروائی کے لئے بھی تو وردی والوں سے ہی رجوع کیا جائے گا۔وردی والے اسے پیٹی بھائی سمجھ کر چھوڑ دیں گے اور یوں کوئی اسے کچھ نہیں کہہ سکے گا۔طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ کسی کے خلاف کارروائی ہو بھی جائے تو چند ماہ بعد جیسے ہی وہ ایشو میڈیا سے اوجھل ہوتا ہے تو وہ لوگ پھر بحال ہو جاتے ہیں۔خادم ِاعلیٰ پنجاب موڈ میں آکر بعض اوقات پورے کا پورا تھانہ معطل کر دیتے ہیں لیکن بعد میں چپکے سے سب کو بحال کر دیا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر چند برس ہوتے ہیں ،خان بیگ آئی جی پنجاب تھے ،تھانہ صدر دیپالپور میں باپ بیٹے سے انسانیت سوز سلوک ہوا۔خادم اعلیٰ نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی اوکاڑہ اور ایس ایچ او سمیت پورے تھانے کو معطل کر دیا۔ڈی پی او چند ماہ بعد ہی ڈی پی او منڈی بہائوالدین لگ گئے اور ان دنوں لاہور میں ایس پی سی آئی اے تعینات ہیں۔باقی عملہ بھی اسی تنخواہ پر بدستور کام کر رہا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کسی نے یہ سمجھنے اور جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ تھانہ کلچر ہے کیا۔تھانہ کلچر تو تب ہی پروان چڑھتا ہے جب زیر تربیت رنگروٹس کی گالم گلوچ سے تواضع کی جاتی ہے ،جب انہیں چھٹی لینے کے لئے اپنے انسٹرکٹرز کو رشوت دینا پڑتی ہے۔جب یہ اہلکار ٹریننگ کے بعد تھانے میں آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ڈیوٹی آف ہونے کا کوئی وقت نہیں۔جب سب سرکاری ملازمین کو چھٹیاں ملتی ہیں تو ان کی چھٹیاں منسوخ کر دی جاتی ہیں۔چندروز قبل معلوم ہوا کہ چکوال میں تعینات ایک ڈی ایس پی کی بیٹی کی شادی تھی مگر انہیں چھٹی نہیں ملی۔تھانہ کلچر ٹھیک کرنا ہے تو سب سے پہلے پولیس والوں سے انصاف کریں،انہیں سہولتیں دیں اور پھر جو وردی والا قانون سے تجاوز کرے اسے نشان عبرت بنادیں ۔

.
تازہ ترین