• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سندھ پر ایک ہی وقت میں مختلف اطراف سے کئی آفتوں کا نزول ہورہا ہے‘ یہ آفتیں بھی کئی قسموں کی ہیں‘ سندھ میں سب سے بڑی سیاسی آفت مارچ میں ہونے والی مردم شماری کو سمجھا جارہا ہے‘ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ کوشش یہ ہورہی ہے کہ سندھ اس مردم شماری کے بعد ’’کالونی‘‘ بن جائے اور سندھی اپنی ہی دھرتی پر ’’ریڈ انڈین‘‘ بن جائیں چونکہ مجھے اس سلسلے میں اعداد و شمار کے ساتھ ایک تفصیلی کالم لکھنا ہے لہذا میں اس کالم میں اس موضوع کو یہیں ختم کرتا ہوں۔ سندھ پر ایک آفت یہ نازل ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے کہ دریائے سندھ میں اوپر سے پانی اتنا کم بھیجا جائے کہ میٹھے پانی کی خاطر سمندر اوپر چڑھ آئے‘ اس وقت بھی سائنسی حقائق کے مطابق سمندر نہ فقط بدین اور ٹھٹھہ اضلاع مگر کراچی کے خاص طور پر ملیر کے علاقے کی کئی ہزار ایکڑ زمین پر چڑھ آیا ہے‘ چونکہ مجھے اس موضوع پر بھی ایک الگ تفصیلی کالم لکھنا ہے لہذا میں فی الحال اس موضوع کو بھی یہاں ترک کررہا ہوں۔ میں آج خاص طور پر کالم لکھنا چاہتا ہوں کہ کس طرح سندھ کو جس میں کراچی بھی شامل ہے کو زہر پلایا جارہا ہے۔ کوئی دس بارہ سال پہلے مجھے کچھ وجوہا ت کی بنا پر صحافت ترک کرکے ڈویلپمنٹ سیکٹر میں کام کرنا پڑا‘ اس سلسلے میں ایک بین الاقوامی ادارے کی طرف سے مجھے ’’ماحولیاتی تحفظ‘‘ کے حوالے سے جو اسائمنٹ ملااس کے تحت میرا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد بنا چونکہ مجھے کام سارے ملک میں کرنا تھا لہذا میں سب سے پہلے اپنے شہر حیدرآباد آیا‘ اس سفر میں‘ میں اپنے ساتھ ڈاکیومنٹری بنانے کی ساری تیاری کرکے آیا تھا یہاں میں نے حیدرآباد میں شہر بھر سے گندا پانی اور حیدرآباد کے صنعتی علاقے کے کارخانوں کا زہریلا مادہ حیدرآباد شہر کی تاریخی نہر پھلیلی میں گرنے کی فلم بنائی‘ یہ نہر حیدرآباد سے لیکر بدین ضلع تک ایک وسیع علاقے کو سیراب کرتی ہے اور اس نہر سے یہ گدلا اور زہریلا پانی نہ فقط فصلوں کی بوائی میں شامل ہوتا رہا ہے بلکہ لوگ اسے پینے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں‘ بعد میں‘ میں کوٹری آیا جہاں کوٹری شہر کا آلودہ پانی اور کوٹری جو ایک بڑی انڈسٹریل اسٹیٹ ہے میں قائم سینکڑوں کارخانوں کا زہریلا مادہ ایک نہر کے ذریعے جاکر ٹھٹھہ ضلع کی کینجھر جھیل میں گرتا ہے‘ یہاں سے یہ پانی کراچی کو بھی فراہم کیا جاتا ہے اور کراچی کے شہری یہی پانی پیتے ہیں‘ بعد ازاں میں ڈاکیو منٹری بنانے والے اس یونٹ کے ساتھ کراچی آیا‘ یہاں ملیر دریا سے لیاری ندی تک کا میں نے دورہ کیا اور ایک دو دن میں ان دریائوں کے ذریعے کراچی شہر کا آلودہ پانی اور کراچی کے صنعتی علاقوں کے سینکڑوں کارخانوں کا زہریلا مادہ سمندر میں گرنے کی فلمیں بنائیں‘ اس کے بعد میں اسلام آباد سے تین چار سینیٹروں کو کراچی مہمان بناکر لایا‘ ان میں اس وقت کے سینیٹر نثار میمن‘ سابق صدر فاروق لغاری کے بیٹے جو اس وقت سینیٹر تھے اور دو قومی اسمبلی کے ممبران بھی شامل تھے جن میں مرحوم فوزیہ وہاب ایم این اے بھی شامل تھیں۔ میں ان پارلیمنٹرین کے ساتھ سمندر کے ایک خاص علاقے میں گیا جب ہم ایک بیڑے کے ذریعے قاسم پورٹ بندر سے سمندر میں آئے اور آگے بڑھے تو ہم سب کی آنکھیں کھل گئیں‘ ہم نے دیکھا کہ یہاں تو عملی طور پر تین مختلف سمندر کے Belts ہیں‘ ایک سمندری Belt کا رنگ ہلکا ہرا یا نیلا تھا جو اصل سمندر کا رنگ ہے‘ ایک سمندری بیلٹ کا رنگ مکمل طور پر کالا تھا‘ دراصل یہ کراچی شہر کا Effeuent تھا جبکہ ایک سمندری Belt کا رنگ مکمل طور پر لال تھا‘ یہ جانوروں کا خون تھا‘ دراصل سمندر کے کنارے کئی سلاٹر ہائوس بنے ہوئے ہیں جہاں کراچی بھر کے سینکڑوں جانور ذبح کیے جاتے ہیں‘ یہ بیلٹ جانوروں کے اس خون اور ان کے مختلف اعضاپر مشتمل تھا‘ یہ کھیل دیکھنے کے بعد ہم سب کا دل بھر آیا کہ ہم نے اپنے سمندر کا کیا حشر کیا ہے‘ اس کے بعد ہم واپس لوٹ آئے‘ میں نے ان ساری ڈاکیومنٹری کی کاپیاں حکومت کے مختلف شعبوں اور کئی غیر ملکی اداروں کو بھی بھیجیں‘ کچھ عرصے کے بعد میں نے کراچی میں نیوی کی ایک بریفنگ میں شرکت کی یہاں نیوی کے ان افسران نے دل کو تکلیف دینے والا ایک انکشاف کیا کہ کراچی اور دبئی کے درمیان مسافروں کے لئے آنے والی فیری سروس شروع کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ دبئی سے آنے والی یہ فیری کراچی کے سمندر میں ان Belts کے گندے پانی میں پھنس گئی اور اس فیری کے مسافروں کی جانیں خطرے میں تھیں مگر نیوی کو فوری اطلاع ملنے کے نتیجے میں نیوی کی Boots پہنچ گئیں اور یہ انسانی جانیں بچ گئیں مگر انہوں نے بتایا کہ اس دن کے بعد کراچی دبئی فیری سروس بند ہوگئی اور اب ممبئی اور دبئی کے درمیان یہ فیری سروس کامیابی سے چل رہی ہے۔ اس مرحلے پر میں یہ بات ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس نظارے کے بعد میں مختلف اخبارات میں لکھ کر اس بات کی طرف توجہ مبذول کراتا رہا کہ نہ فقط سندھ بلکہ سارا پاکستان جو دریائے سندھ کا پانی استعمال کرتا ہے خطرے میں ہے کیونکہ دریائے سندھ کے دونوں طرف چھوٹے بڑے شہر واقع ہیں جہاں کا آلودہ پانی بے دھڑک دریائے سندھ میں گر رہا ہے‘ اسی طرح دریائے سندھ کے دونوں طرف سینکڑوں کارخانے ہیں جن کا زہریلا مادہ دریا میں گر رہا ہے‘ میں کہتا رہا ہوں کہ وفاقی حکومت اور متعلقہ صوبائی حکومتوں کو مختلف علاقوں کے لئے منصوبے بنانے چاہئیں جن کے تحت یہ گدلا پانی اور زہریلا مادہ فلٹر کرکے دریا میں جانے دیاجائے مگر افسوس کہ اب تک اس سلسلے میں کوئی قابل عمل قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سندھ کئی خطرناک بیماریوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے‘ یہ صورتحال آج سندھ کی ہے اگر ابھی سے تدارک نہ کیا گیا تو خدانخواستہ جلد یہ صورتحال پنجاب اور دیگر علاقوں کی بھی ہوگی۔

.
تازہ ترین