• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سانحہ لاہور پر مختلف آرا ، خبریں، تبصرے اور انٹرویوز ہو رہے ہیں، ہر کوئی بھانت بھانت کی بولی بول رہا ہے۔ ہمارے سیاستدان اس سانحہ پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سانحہ لاہور کے موقع پر اپنا کراچی کا دورہ ملتوی کرتے ہوئے لاہور پہنچے۔ ایئر پورٹ پر صحافیوں سے انہوں نے جو گفتگو کی اس میں وہ پانامہ لیکس کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکے۔ کپتان نے میڈیا سے اپنی گفتگو کے دوران ملکی یکجہتی اور مل کر دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی بجائے حکومتی کارکردگی پر نکتہ چینی کی، خیبر پختونخوا پولیس کو پاکستان کی بہترین پولیس اور وہاںکی حکومت کو بہترین صوبائی حکومت قرار دیا۔ مزید کہا کہ تمام وفاقی وزراء وزیر اعظم کی کرپشن چھپانے پر لگے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے سانحہ لاہور پیش آیا۔ ان کو یہ یاد کروانا ضروری ہے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے موقع پر کے پی کی پولیس کہاں تھی اور اسی طرح جب بنوں جیل توڑ کر مجرم فرار ہو رہے تھے، اس وقت وہاںکی پولیس کہاں سوئی ہوئی تھی؟۔ یہاں پر یہ بات کرنے کا مقصد پختونخوا حکومت پر تنقید کرنا نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ معاملہ دہشت گردی کی صورت میں رونما ہونے والے سانحہ کا ہے۔ اس پر سیاست کرنے کے بجائے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی۔ اسی طرح عمران خان کی گفتگو کے ردعمل میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا بیان بھی پوائنٹ اسکورنگ تھا۔ اس موقع پر اس قسم کا ردعمل بھی مناسب نہیں تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی جو ہمیشہ سے دعویٰ کرتی آئی ہے کہ وہ پنجاب میں دم مست قلندر کرے گی ان کی مرکزی قیادت سانحہ لاہور کے موقع پر کہیں نظر ہی نہیں آئی۔ شاید آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پاکستان میں نہیں اور جب تک وہ پاکستان میں واپس آئیں گے یہ واقعہ منوں مٹی تلے دب چکا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت نے بھی سانحہ لاہور پر صرف اور صرف سیاست ہی کی۔
اب ذرا بات کر لیتے ہیں کہ یہ سانحہ کیوں پیش آیا؟ اور اس کے محرکات کیا ہیں؟۔ لاہور میں ہر سال فروری کے مہینہ میں جشن بہاراں کے سلسلے میں تقریبات منائی جاتی ہیں۔ یہ تقریبات پہلے بسنت کا تہوار منا کر انجام دی جاتی تھیں۔ لیکن دہشت گردی کے واقعات شروع ہونے کے بعد بسنت تہوار کو ختم کر دیا گیا تھا اور جشن بہاراں کی قابل ذکر اور مرکزی تقریب کا اہتمام ریس کورس پارک میں کیا جانے لگا۔ اس سال بھی جشن بہاراں کی مرکزی تقریب کے ٹینڈر جاری کئے جا چکے تھے لیکن حکومت پنجاب کو اطلاع ملی کہ اگر جشن بہاراں کی یہ تقریب منعقد کی گئی تو دہشت گردی کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تقریب منسوخ کر دی گئی۔
ڈرگ ایسوسی ایشن کے احتجاج سے پہلے صوبائی پرائمری وزیر صحت خواجہ عمران نذیر نے ایسوسی ایشن کے وفد سے ملاقات کے دوران یہ بتایا تھا کہ آپ جلسہ، جلوس سے گریز کریں کیونکہ لاہور میں دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں۔ لیکن ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے ان کی ایک نہ سنی۔
جس روز یہ واقعہ پیش آیا اس وقت سی سی پی او لاہور امین وینس، ایس ایس پی ایڈمن رانا ایاز، قائمقام ایس ایس پی آپریشن زاہد گوندل، ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) احمد مبین چیئرنگ کراس مال روڈ پر موجود تھے اور ادویہ ساز کمپنیوں اور میڈیکل اسٹور مالکان سے مذاکرات کر رہے تھے۔ اس موقع پر پولیس کے اعلیٰ افسران نے بھی ڈرگ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اور دیگر افراد کو یہ واضح طور پر بتا دیا کہ لاہور میں دہشت گردی کا خطرہ ہے لہٰذا وہ جلد از جلد اپنا احتجاج ختم کرتے ہوئے علاقہ خالی کر دیں۔ مذاکرات ختم ہوتے ہی سی سی پی او امین وینس اور ایس ایس پی ایڈمن رانا ایاز اپنے دفاتر کی طرف روانہ ہو گئے، ان کی روانگی کے بعد ہی یہ درد ناک سانحہ پیش آ گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس سانحہ کا مرکزی ٹارگٹ کیپٹن امین وینس تھے، لیکن ’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘۔ بہرحال اس افسوس ناک سانحہ میں دو انتہائی قابل پولیس افسران ایس ایس پی زاہد گوندل اور ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) احمد مبین کو جام شہادت نصیب ہوا۔
ڈرگ ایسوسی ایشن کے عہدیداران اور اس سے وابستہ افراد اس بات پر احتجاج کر رہے تھے کہ حکومت پنجاب نے جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف اسمبلی میں سخت قوانین اکثریت رائے سے منظور کروائے تھے۔ اس کے ساتھ ہی میڈیکل اسٹور کے ایسے ملازمین جن کے پاس کیمسٹ کا ڈپلومہ نہیں تھا اور وہ بغیر ڈپلومہ کے میڈیکل اسٹور پر ادویات فروخت کرتے تھے ان کے خلاف بھی قانون سازی کی گئی تھی۔ ان قوانین میں ایسی دوا ساز کمپنیوں پر بھاری جرمانے کرنے، سزائیں دینے اور لائسنس منسوخ کرنے کی منظوری دی گئی ہے جو ادویات میں مقررہ مقدار سے کم ادویات کا سالٹ استعمال کرتی ہیں اور دوائی کی پیکنگ پر زیادہ مقدار تحریر کرتی ہیں، یعنی اگر زندگی بچانے والی دوائی میں 500 ملی گرام سالٹ ہونا چاہئے تو اس میں 100 ملی گرام سالٹ کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ 400 ملی گرام مضر صحت پائوڈر مکس کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ کمپنیاں برس ہا برس سے زندگی بچانے والی ادویات میں ملاوٹ کر کے انسانی جانوں سے کھیل رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایسی ادویات بنانے والی کمپنیاں اور گروہ سادہ لوح اور معصوم عوام سے سالانہ کھربوں روپے کما رہے ہیں۔ میری حکومت پنجاب سے گزارش ہے کہ اس قانون کے حوالے سے اپنے اصولی موقف پر ڈٹ جائے اور کسی قسم کا دبائو قبول نہ کرے۔ میری دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی درخواست ہے کہ انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے حکومت پنجاب کی اس قانون سازی پر سیاست کرنے کے بجائے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کا ساتھ دیں۔
سانحہ لاہور کے رونما ہونے میں اس ہٹ دھرم ڈرگ مافیا اور ڈرگ ایسوسی ایشن نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ جن کی وجہ سے دہشت گردوں کا ہدف آسان ہو گیا ہے۔ میں یہ بات یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ دہشت گردی کے اس واقعہ کا مقصد نہ صرف لاہور میں ہونے والے پی ایس ایل کے فائنل کو رکوانے کی کوشش ہے بلکہ پاکستان کی معاشی شہ رگ سی پیک منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہمارے دشمن نے باقاعدہ اعلان جنگ کر دیا ہے۔ میں اس بات پر حیران ہوں کہ ہمارا میڈیا جو حکومت یا کسی ادارے کے خلاف ضرورت سے زیادہ کھل کر بات کرتا ہے لیکن اس نے سانحہ لاہور کے بعد کہیں پر بھی یہ بات کھل کر نہیں کی کہ اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ ہمسایہ ملک بھارت ہے۔اسی طرح ہماری حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی سانحہ لاہور کہ واقعہ پر براہ راست بھارت کا نام لیکر اسے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ اس کے بر عکس بھارت میں اگر کوئی کبوتر بھی پکڑا جائے تو اس کو پاکستانی جاسوس کہہ کر میڈیا کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ ریاست پاکستان کے تمام اداروں کو بھارت کے اس اعلان جنگ کا مکمل ادراک ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے انتہائی اہم فیصلے کرنا چاہئیں جبکہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے جامع پالیسی مرتب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

.
تازہ ترین