• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نگاہ بلند، سخن دلنواز سراپا ناز
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کہتے ہیں:بزدل دشمن با ہمت پاکستانی قوم کو شکست نہیں دے سکتے بھلے حکومت کو چاروں شانے چت گرا دیں، آخر حکمرانوں کے کرنے کے کام عوام کے ذمہ کیوں لگا دیئے جاتے ہیں، اقتدار میں بیٹھے افراد کا کام ہے کہ وہ صرف نگاہ بلند کہ کچھ زمین پر دکھائی نہ دے، سخن دلنواز کہ بیانات پڑھ لیں تو گویا جنت کے احوال جان لیں اور پھر طرہ یہ کہ سراپا ناز بھی رہیں، اگر ادارے کام کر رہے ہوتے تو بزدل دشمن اتنے بہادر نہ ہوتے کہ حکومتی مشینری کے ہوتے ہوئے بغل میں بارود لئے پھرتے اور جہاں عوام کا ہجوم دیکھتے ان کو اڑا کر رکھ دیتے، آج حکمراں کیوں محفوظ ہیں اس لئے کہ سیکورٹی رکھتے ہیں پاکستانی قوم کیوں غیر محفوظ ہے کہ ان کو کافی شافی سیکورٹی حاصل نہیں، پبلک مقامات کو بلند کرتا اعتراف نا اہلی ہے، کیوں عوام پر دروازے بند کرتے ہیں، اپنے کام چور اداروں کو فعال بنائیں کہ آخر وہ کس دن کام آئیں گے، کاروبار زیست کو بریکیں کیوں لگاتے ہیں، ہجوم بننے دیں تاکہ دہشت کیڑے مکوڑے برساتی مینڈکوں کی طرح شکار پر نکلیں اور حکومتی ادارے انہیں تباہی پھیلانے سے پہلے ہی رزقِخاک بنا دیں، لوگوں کو گھروں میں بند کر کے حالات پر قابو پانا ہے، تو خود بھی گھروں کو جائیں، یہ تقریریں یہ بیان بازی اپنے اور بازی جیتنے کے لئے عوام، آخر کیوں؟ لوگ بازاروں میں جائیں گے، مزاروں پر حاضری دیں گے، پارکوں، تعلیمی اداروں کا رخ کریں گے، ان کے خادم ان کے محافظ نہیں، خادم پنجاب اینڈ کمپنی اب محافظ پنجاب نہیں کہ یہی وقت کی پکار ہے۔
٭٭٭٭
پر رکھتے ہیں مگر طاقتِ پرواز نہیں
سانحہ سہون، شہداء کی باقیات نالے سے برآمد اور اپوزیشن لیڈر سائیں خورشید شاہ کا فرمان کہ دھماکے سے اڑ کر نالے میں جا گرے، اسے ستم ظریفی کہیں ظالمانہ مذاق کا نام دیں یا پھر امکانات کی دنیا کی بادشاہی، ایک بند ہال میں دھماکہ ہوا جو زائرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، وہاں سے انسانی اعضاء دیواریں، چھت، گنبد پھاڑ کر ایک کلو میٹر دور گندے نالے میں جا گرے، اور کہیں نہیں گرے، یہ خیال آفرینی خورشید سیاست ہی کا حصہ ہے ورنہ کسی اور کی فکر میں اتنی طاقتِ پرواز کہاں، ہمیں اگر کوئی حل کوئی علاج کوئی راستہ دکھائی سجھائی نہیں دیتا تو خاموش رہیں، جیسے گل، چمن میں خاموش رہتا ہے بلبل کی طرح چیخ و پکار نہیں کرتا جو اسے مرجھانے سے بچانے کے لئے تو کچھ کر نہیں سکتی، چمن کے کتنے پھول اب تک کچلے جا چکے اعدادوشمار جمع کئے جائیں تو کسی بڑی سے بڑی جنگ میں اتنی جانیں ضائع نہ ہوئی ہوں گی، اب مصائب دہشت گردی بیان کرنے سے دہشت گردوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، اگر رموز حکمرانی پر دسترس ہے تو ذمہ دار اداروں کو متحرک کریں، اپوزیشن ہی تو حکمرانوں پر چیک ہوتی ہے، مگر اب تو اپوزیشن بھی ایک بھاری بھرکم چیک جسے بھنا لیں موج اڑا لیں، لوگوں نے تو ووٹ اپنے جانی مالی تحفظ اور بہتر زندگی کےلئے دیئے، مگر ان کے بدلے انہیں بربادیاں، آنسو، دل کے ٹکڑوں کے چیتھڑے ملے،
٭٭٭٭
تعلیم کو تعلیم ہی رہنے دیں
جو اشتہار بازی نئی کالونیوں، پلازوں کے لئے کی جاتی ہیں اس سے کہیں زیادہ نئے نئے اسکولوں کی تشہیر کی جاتی ہے، دونوں جانب حکومت سے منظوری یا حکومت کی جانچ پرکھ کا رواج ہی نہیں، ابھی کالونی بنی نہیں ہوتی ابھی اسکول اسٹارٹ نہیں ہوتے کہ ان کی جاذب نظر خیالی تصاویر سامنے آ جاتی ہیں، کوئی فیکٹری لگانے، تجارت کرنے سے زیادہ اسکول کھولنے، چوبارہ اکیڈمیاں قائم کرنے میں منافع ہے، اگر عوام کی جیبوں کے مطابق یہ تعلیمی ادارے کھولے جاتے تو یہاں تعلیم جو سرکار عام نہ کر سکی پرائیویٹ سیکٹر کر دیتا مگر یہ تو ٹھہرا نرا کاروبار تعلیم فروشی کا جہاں سستے اساتذہ اور مہنگے طالب علم عام ملتے ہیں، جس کا جو جی چاہے اپنے اسکول کی فیسیں اور دیگر رقم بٹورنے کے طریقے متعارف کرا دے کوئی پوچھنے والا نہیں، جو طالب علم ذہانت کا شوق رکھتا ہو مگر بھاری فیس دینے کی سکت نہ رکھتا ہو اسکول سے نکال باہر کیا جاتا ہے، اگر محکمہ تعلیم فعال ہوتا، پاک ہوتا، بیدار ہوتا، ملک میں تعلیم کی روشنی کا طلب گار ہوتا تو ان تعلیم فروشوں کی اسکول نما دکانیں یوں لوٹ مار نہ کر سکتیں، اب تو یہ ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ جب کچھ نہ ہو سکے تو اسکول کھول لیں، اکیڈمی کھڑی کر دیں اور آرام سے گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کرعلم کو چھابے میں رکھ کر دو سو فیصد منافع رکھ کر ہاتھوں ہاتھ دھڑا دھڑ فروخت کریں اور سرمایہ دار بن جائیں، اگر حکومت چاہے تو اپنے محکمہ تعلیم میں ایک سیل قائم کرے جو تعلیمی دکانوں کو جا کر دیکھیں کہ وہاں تعلیم کس بھائو بکتی ہے، اور کیا ایک اسکول یا اکیڈمی کے مطلوبہ تقاضے پورا کئے جاتے ہیں یا صرف اشتہار بازی ہے، غیر معیاری تعلیمی معیاری قیمت کے عوض بیچی جاتی ہے۔
٭٭٭٭
وہ کرتے رہیں گے ہم مرتے رہیں گے؟
....Oکرپشن کا مکمل ایک نمبر احتساب کیوں نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ بے حساب ہے!
....Oسابق گورنر پنجاب سید احمد محمود:دہشت گردی کے خلاف بولتے رہیں گے، یہی حکمران بھی کہتے ہیں، ہم سب بولتے ہی رہیں گے اور دہشت گرد اپنا کام کرتے رہیں گے۔
....Oڈاکٹر عاصم:میڈیا کچھ وقت دے ایک خاص چیز سامنے لائوں گا، دیر کس بات کی، میڈیا تو وقت مانگنے والے ڈھونڈتا ہے،
....Oوزیر اعلیٰ پنجاب:دہشت گرد سفاک دشمن ہیں صفایا کر کے دم لیں گے، دم ہو گا تو دم لیں گے،



.
تازہ ترین