• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’امیر آدمی وہ ہے جس کی دولت سے دوسرے لوگ بھی مستفید ہوں۔‘‘ شاید اِسی کہاوت کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی 20ارب پتی شخصیات نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنی دولت کا بیشتر حصہ فلاحی کاموں اور انسانیت کی خدمت کیلئے عطیہ کریں گے۔ اِن شخصیات میں سرفہرست دنیا کے امیر ترین شخص مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس ہیں جنہوں نے اپنی آمدنی کا 95 فیصد فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کا عہد کیا۔ بل گیٹس کی مجموعی دولت کا اندازہ تقریباً 85ارب ڈالر لگایا گیا ہے جس میں سے وہ اب تک فلاحی کاموں پر اپنے فلاحی ادارے ’’بل اینڈ ملینڈا گیٹس‘‘ کے ذریعے 28ارب ڈالر عطیہ کرچکے ہیں جبکہ بل گیٹس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اُن کے قریبی دوست اور دنیا کی تیسری بڑی ارب پتی شخصیت وارن بوفٹ جن کی دولت کا اندازہ 47ارب ڈالر لگایا گیا ہے، اب تک 11ارب ڈالر چیریٹی کی مد میں دے چکے ہیں۔ اسی طرح فیس بک کے بانی مارک زکربرگ جن کی دولت کا اندازہ41ارب ڈالر لگایا گیا ہے، 1.6ارب ڈالر فلاحی کاموں کیلئے وقف کرچکے ہیں۔
عرب دنیا کی امیر ترین شخصیت سعودی شہزادے الولید بن طلال جن کے اثاثوں کی مالیت تقریباً 32ارب ڈالر لگائی گئی ہے، نے اپنی تمام دولت خیراتی کاموں کیلئے وقف کرنے کا اعلان کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ پرنس طلال کے بقول انہوں نے اپنی دولت خیراتی کاموں کیلئے وقف کرنے کا فیصلہ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس سے متاثر ہوکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان کو اپنے عروج پر کچھ ڈرامائی اور انتہائی نوعیت کے فیصلے کرتے رہنا چاہئے۔ سعودی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 60سالہ شہزادے الولید بن طلال کا شمار دنیا کی 100امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ الولید بن طلال اس وقت سعودی حکومت میں کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتے تاہم وہ کنگڈم ہولڈنگ کمپنی کے سربراہ ہیں جس کی دنیا بھر کے متعدد ہوٹلوں، میڈیا، رئیل اسٹیٹ، سٹی گروپ، ٹوئٹر اور ایپل جیسی بڑی کمپنیوں میں شراکت داری ہے۔ شہزادہ الولید بن طلال کے بقول انہوں نے یہ اعلان دو سال کی تیاریوں اور یہ امر یقینی بنانے کے بعد کیا کہ اُن کی وفات کے بعد اُن کے بچے بھی فلاحی منصوبے جاری رکھیں گے۔ منصوبے کے تحت آئندہ چند سالوں میں وہ اپنے تمام اثاثے خیراتی ادارے ’’الولید فائونڈیشن‘‘ کو منتقل کردیں گے جس کے بعد یہ دولت یتیموں، مسکینوں، بے سہارا عورتوں اور بچوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزادہ الولید بن طلال اپنی دولت میں سے اب تک 3.5ارب ڈالر فلاحی کاموں پر خرچ کرچکے ہیں۔
گزشتہ سال جب میں میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کے لاعلاج مرض میں مبتلا 3بچوں کو اُن کی خواہش پر بھارتی اداکار سلمان خان سے ملاقات کیلئے ممبئی لے کر گیا تو سلمان خان سے ملاقات کے دوران مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ سلمان خان اپنی اربوں روپے کی آمدنی کا 75فیصد فلاحی کاموں پر خرچ کردیتے ہیں جبکہ ان کا ادارہ Being Human Foundation بھی انسانی خدمت اور فلاحی کاموں میں مصروف عمل ہے۔ دنیا کی امیر ترین شخصیات کے طرز زندگی کا جائزہ لیا جائے تو دولت کے تناسب سے اُن کی زندگی میں انتہائی سادگی و کفایت شعاری دکھائی دیتی ہے جبکہ وہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور فلاحی کاموں پر اپنی دولت خرچ کرنے میں سب سے آگے نظر آتے ہیں مگر افسوس کہ پاکستان میں اس طرح کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ پاکستان کی ارب پتی شخصیات کی زندگی تعیشات و آسائشوں سے لپٹی ہوئی ہے اور ان کی زندگی کا بظاہر کوئی مقصد دکھائی نہیں دیتا جبکہ وہ انسانی فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی دنیا کی دیگر شخصیات سے بہت پیچھے ہیں حالانکہ مذہب اسلام ہمیں مساوات، انسانی ہمدردی، خدمت خلق اور غریبوں و مسکینوں کی مدد کرنے کا درس دیتا ہے۔
پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ملک میں فرسودہ معاشی نظام کے سبب امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک مقامی میگزین میں ایک ارب ڈالر سے زائد دولت رکھنے والی پاکستان کی 10 ارب پتی شخصیات کی فہرست شائع ہوئی۔ میگزین کے مطابق ان شخصیات کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب ڈالر سے زائد ہے مگر معروف بزنس مین ملک ریاض جو اکثر اوقات انفرادی طور پر انسانیت کی فلاح و بہبود اور فلاحی کاموں پر خرچ کرتے رہتے ہیں، کے علاوہ اِن میں سے شاید ہی کوئی ایسی شخصیت ہوگی جس نے بل گیٹس یا دنیا کی دیگر بین الاقوامی شخصیات کی طرح اپنی دولت کا بیشتر حصہ فلاحی کاموں کیلئے وقف کرنے کا اعلان یا یہ وصیت کی ہو کہ اُن کے مرنے کے بعد اُن کی دولت فلاحی کاموں پر خرچ کی جائے بلکہ پاکستان کے امیر طبقے کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اُن کے مرنے کے بعد تمام دولت بچوں کو منتقل ہوجائے تاکہ اُن کے بچے کامیاب زندگی گزارسکیں۔
کچھ عرصہ قبل جب بھارت میں جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کے دبائو پر حکومت نے سرکس پر پابندی عائد کردی تو کولکتہ کی ایک معروف سرکس انتظامیہ نے اپنے 10شیروں کو بنگال کے جنگلوں میں لے جاکر چھوڑ دیا۔ کچھ روز بعد سرکس انتظامیہ کو یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ اُن کے سرکس کے شیروں میں سے بیشتر کو جنگلی کتے کھاگئے۔ انتظامیہ نے جب اس کی وجوہات معلوم کیں تو یہ بات سامنے آئی کہ سرکس کے ان شیروں کو شکار کئے بغیر گوشت کھانے کو مل جاتا تھا، اس لئے وہ شکار کرنے کی اپنی صلاحیت سے محروم رہے جس کے باعث وہ خود ہی جنگلی کتوں کا شکار بن گئے۔ اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایسے والدین جو بعد از مرگ اپنے بچوں کیلئے بے پناہ دولت چھوڑجاتے ہیں، اُن کے بچوں کی مثال سرکس کے شیروں کی طرح ہوتی ہے جو ترقی کرنے کی اپنی صلاحیتوں سے محروم رہتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس کی سوچ مختلف ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی وصیت میں بچوں کیلئے صرف ایک ملین ڈالر چھوڑ کر جائیں گے کیونکہ اگر وہ اربوں ڈالرز کی جائیداد اپنی اولاد کیلئے چھوڑگئے تو اُن کے بچے کبھی کامیاب انسان نہیں بن سکیں گے بلکہ وہ صرف اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر ہی کامیاب انسان بن سکتے ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خوشی، دولت اور شہرت سے حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ ہمیں اندرونی طور پر خوشی اُس وقت حاصل ہوتی ہے جب ہم خود کو اللہ کے سپرد (Surrender) کردیتے ہیں جس سے ہمیں نہ صرف سچی محبت ملتی ہے بلکہ جب ہم اسے اللہ کے بندوں سے شیئر کرتے ہیں تو اندرونی طور پر خوشی حاصل ہوتی ہے۔ مذکورہ واقعہ اور بل گیٹس کے فیصلے سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے۔ کاش کہ یہ واقعہ اور میرا کالم پڑھنے کے بعد پاکستانی ارب پتی اور کروڑ پتی شخصیات بھی دنیا کی دیگر ارب پتی شخصیات کے نقش قدم پر چل سکیں۔



.
تازہ ترین