• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج پھر ویسا ہی دن طلوع ہوا ہے، جب کچھ لکھنے کو میرا جی نہیں چاہتا۔ دل و دماغ پر عجیب طرح کی یبوست سی طاری ہو جاتی ہے۔ آج میں جس کسی سے بھی ملوں گا وہ مجھے دنیا کا بور ترین شخص سمجھے گا بلکہ آج کے بعد وہ دوسروں کو بھی یہی بتائے گا حالانکہ میں روزانہ ایک سے بڑھ کر ایک بور شخص سے ملتا ہوں مگر مجال ہے کہ یہ بات کبھی زبان پر لائی ہو۔ یہ بات تو میں سامنے بیٹھے بور شخص سے بھی نہیں کہتا لیکن جمائیوں پر تو کسی کو اختیار نہیں ہوتا۔ جب اس کی صحبت کے نتیجے میں اوپر تلے جمائیاں آنا شروع ہوتی ہیں تو بھی وہ میری دلی کیفیت کو سمجھ نہیں پاتا بلکہ کہتا ہے کہ یار تم جو ہر تھوڑی دیر بعد پہاڑ ایسا منہ کھولتے ہو اور پھر کچھ کہے بغیر بند کر دیتے ہو، اپنی کم ظرفی پر قابو پا کر کہہ ہی کیوں نہیں دیتے کہ تمسے زیادہ خوشگوار کمپنی کسی کی نہیں۔ مگر تعریف تو تمہارے گلے میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔ سوچتا ہوں کہ کسی دن اس طرح کے احمقوں کی خوش فہمی رفع کر ہی دوں!
یہاں تک لکھنے کے بعد میں نے سوچا کہ قارئین کو اپنی بوریت اور یبوست کی کہانی سنانے کی بجائے میں اپنی اس کیفیت کا سراغ تو لگائوں کیونکہ ماہرین نفسیات کے مطابق جب آپ اپنے کسی بھی پرابلم، جس کی وجہ سمجھ نہ آتی ہو، اس کی تہہ تک پہنچ جائیں تو علاج ممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہپناٹائز کرنے والے آپ کو شعور سے لاشعور تک کا سفر طے کراتے ہیں اور پھر اس دوران مسئلے کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ میں بلا کسی وجہ کے اداس اداس سا رہتا تھا۔ میں ایک ماہر نفسیات دوست کے پاس گیا جو ہپناٹائز کرتا ہے اور اسے اپنی کیفیت سے آگاہ کیا۔ اس نے مجھے ایک تختے پر لٹایا اور آنکھیں بند کرنے کو کہا۔ میں نے حکم کی تعمیل میں آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے بولنا شروع کیا ’’تم ایک ندی کے کنارے بیٹھے ہو جو خوبصورت سرسبز پہاڑوں کے درمیان ہے، تمہیں پرندوں کی چہچہاہٹ سنائی دے رہی ہے، موسم بہار کی خوشگوار ہوا تمہارے بدن سے مس ہو رہی ہے، تمہیں نیند آنے لگی ہے، تم سونا چاہ رہے ہو، تم سو رہے ہو، تم سو گئے ہو۔ تم سو گئےہو ۔ تم سو گئے ہو‘‘۔ اس پر میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا ’’بکواس بند کرو۔ میں پوری طرح ہوش و حواس میں ہوں، مجھے کوئی نیند ویند نہیں آ رہی‘‘ اس دن سے میرے اس دوست نے مجھے جاہل اور علم دشمن قرار دے دیا ہے۔
برا ہو اس عادت کا کہ میں تو اپنی بوریت بلکہ یبوست کا سراغ لگانے کی بات کر رہا تھا اور میں بھٹک کر کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔ بہرحال میں نے غور و فکر شروع کیا کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے جو میں اس کیفیت میں مبتلا ہوں تو مجھے یاد آیا کہ کل میری ملاقات ایک مولانا سے ہوئی تھی۔ انہوں نے بہت اچھی اچھی باتیں کیں، مجھے دین مبین اسلام پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی اور ان سب اچھے کاموں سے آگاہ کیا جو کرنے کی صورت میں بعد از وفات مجھے جنت الفردوس میں جگہ ملے گی۔ یہاں تک سب کچھ ٹھیک تھا مگر اس کے بعد انہوں نے جنت کی حوروں کا سراپا بیان کرنا شروع کیا اور اس کی جزئیات کچھ اس تفصیل سے بیان کرنا شروع کیں کہ اس عمر میں بھی مجھے اپنے جسم میں برقی لہریں دوڑتی محسوس ہوئیں۔ پیشتر اس کے کہ میں جنت جانے کا انتظار نہ کر پاتا، میں نے حضرت کو حوروں کے اندرونی اور بیرونی سراپا کی مزید جزئیات سے روک دیا اور کہا ’’قبلہ جب میں ذہنی طور پر گناہوں سے تائب اور دینی احکامات پر عمل پیرا ہونے کا عزم کر چکا تھا اور اس سے پہلے بھی حتی المقدور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہوں، تو آپ نے لین دین کی باتیں شروع کر دیں ۔ کسی بھی اچھے کام کے لئے Insentiveدینا لازمی ہوتا ہے مگر مجھے تو پہلے ہی سے جنت کے خوبصورت شام و سحر کا اندازہ ہے، حوروں سے بھی رغبت ہے، مگر آپ نے جو جزئیات بیان کی ہیں ان سے میں پریشان ہو گیا ہوں، کاش میں آپ کو اپنی پریشانی مجسم شکل میں دکھا سکتا۔ یہ باتیں نابالغ ذہن کے خودکش بمباروں کے کام کی ہیں، آپ مجھے بھی کہیں نابالغ ذہن کا خودکش بمبار تو نہیں سمجھ بیٹھے۔‘‘ یہ سن کر مولانا نے دہشت گردوں پر ایک ہزار بار اور مجھ پر دو ہزار بار لعنت بھیجی اور ناراض ہو کر چلے گئے۔ میرے خیال میں میری آج کی اداسی اور یبوست کی وجہ شاید یہ احساس ہے کہ میں نے ایک نیک مگر معصوم انسان کی دلآزاری کی!
تاہم صرف یہی ایک وجہ میری آج کی بیزاری کا سبب نہیں ہو سکتی۔ اس کا سبب وہ لوگ بھی تو ہو سکتے ہیں جو گھر سے لڑ کر آتے ہیں اور گھر واپسی کا راستہ بند پانے کی صورت میں میرے پاس آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور مجھے گھنٹوں خوشگوار ازدواجی زندگی کے راز بتانے میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے میں نے اپنی میز پر اس مضمون کی تختی بھی دھری ہوئی ہے ’’ہمیں احساس ہے کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے‘‘ مگر وہ آتے ہی یہ تختی الٹی کر کے رکھ دیتے ہیں۔ میرے پاس وقت گزاری کے لئے آنے والے سب کے سب گھر سے لڑ کر نہیں آئے ہوتے، ان میں سے بہت سے تو مجھ سے لڑنے کے لئے آئے ہوتے ہیں اور پرانی دوستی کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ تم کیسے چیئرمین ہو، میرے میٹرک پاس بیٹے کو ایم ڈی تک نہیں رکھوا سکتے؟ بہرحال قارئین مجھے معاف فرمائیں کہ میں اپنی بوریت ان تک منتقل کر رہا ہوں۔ میں تو صرف یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ آج میرا کالم لکھنے کو جی نہیں چاہ رہا۔ یہ جو کچھ لکھا ہے محض ٹرخالوجی ہے۔ آپ یہی سمجھیں کہ آج میرے کالم کا ناغہ ہے!

.
تازہ ترین