• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے صارفین سے 125 ار ب روپے اضافی وصول کیے

اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے بجلی کی قیمتوں کے تعین کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکوز) صارفین سے مسلسل دو سال تک (2014-15 اور 2015-16) اضافی 125؍ ارب روپے وصول کر چکی ہیں۔ نیپرا نے 2015-16ء کیلئے ایک سال کی ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر فی یونٹ 10.90؍ روپے قیمت مقرر کی تھی لیکن حکومت بدستور 12.33؍ روپے فی یونٹ وصول کرتی رہی۔ دی نیوز کے پاس دستاویزات سے انکشاف ہوتا ہے کہ حکومت نے مسلسل ایک سال تک صارفین سے فی یونٹ 1.43؍ روپے اضافی وصول کیے۔ حکومت نے تا حال نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جس کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے صارفین سے 125؍ ارب روپے کی بھاری رقم بٹور لی ہے۔ پاور سیکٹر کی دستاویزات دیکھ کر تاریک صورتحال کا علم ہوتا ہے اور یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ صارفین کو 2014-15 میں 65؍ ارب روپے جبکہ 2015-16 میں 60؍ ارب روپے سے محروم کر دیا گیا۔ مجموعی طورپر ڈسکوز نے صارفین سے 125؍ ارب روپے اضافی وصول کیے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ریگولیٹر کی جانب سے حکومت کے سینئر عہدیداروں سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے کی وجہ سے صارفین کو ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کیلئے انہیں 125؍ ارب روپے کی سبسڈی دی جائے۔ رابطہ کرنے پر وزارت پانی و بجلی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) نے ٹیرف کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ ٹیرف نامناسب ہے اور اصل خسارے کو پورا نہیں کرتا۔ لہٰذا اس بات میں وزن نہیں کہ ڈسکوز نے صارفین سے رقم بٹوری ہے اور اس بات کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ آنے پر ہوجائے گا۔ تاہم، سینئر حکام کہتے ہیں کہ اب نیپرا اور حکومت کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے اور امکان ہے کہ ڈسکوز کی جانب سے 2016-17ء کے ٹیرف کے تعین کیلئے نیپرا کو درخواست جمع کرانے میں تاخیر کی جا سکتی ہے کیونکہ ڈسکوز کو اس بات کا خدشہ ہے کہ فی یونٹ قیمت 10.90 روپے تک کم نہ کرنے پر ریگولیٹر کی جانب سے غیر قانونی طور پر وصول کیے گئے 125؍ ارب روپے کا معاملہ ختم کیا جائے گا یا نہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ کچھ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) نے 2016-17ء کے سالانہ ٹیرف کی درخواست کرا دی ہے۔ تاہم، سرکاری دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ڈسکوز نے ریکوری کے معاملے میں بھی نا اہلی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے 2015-16 میں پاور سیکٹر کو 105 ارب روپے کا زبردست نقصان ہوا ہے اور اس طرح گردشی قرضوں میں بھی 105؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ 105؍ ارب روپے کا یہ نقصان بالترتیب ٹرانسمشن 68 ارب روپے اور ڈسٹری بیوشن 37 ارب روپے پر مشتمل ہے۔ دستاویزات دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ لائن لاسز 18.9؍ فیصد ہیں جس پر حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ 15.2؍ فیصد تک قابل قبول ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ریکوری 93 فیصد تک بہتر ہوئی ہے جس کے باعث نقصانات 18.9 فیصد سے کم ہو کر 17.9 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ اب بھی 2.9 فیصد کا فرق باقی ہے جس کا مطلب یہ ہوا ہے سسٹم کو 37 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ ایک فیصد لائن لاسز کا مطلب سسٹم کو 13 ارب روپے کا نقصان ہے اور یہ نقصان بھی گردشی قرضوں میں شامل ہو جاتا ہے۔
تازہ ترین