• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرمایہ داری میں سرمایہ ہی سرتاج ہوتا ہے، وہی معاشی طاقتوں کو کنٹرول کرتا ہے اور اسی کا معاشرے میں راج ہوتا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظاموں میں خود بڑے سرمایہ دار حکومت پر قبضہ نہیں کرتے اور پیچھے سے بیٹھ کر ڈوریں ہلاتے ہیں۔ ان معاشروں میں عمومی طور پر جمہوری نظام ہوتا ہے اور حکومت میں نظر آنے والے چہرے درمیانے طبقے کے ہوتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اوپر والے درمیانے طبقے سے۔ اس طرح کے معاشروں میں یہ فریب نظر بھی پایا جاتا ہے کہ جیسے حکومت عوام کی ہو یعنی کہ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘ سرمایہ داری نظام کے ناقدین کا کہنا ہے کہ بظاہر حکومت میں آنے والے درمیانے طبقے کے لوگ نظام میں ہونے والے عوامی استحصال کی پردہ پوشی کا کام کرتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں اب یہ فریب نظر ختم ہو گیا ہے کیونکہ ارب پتی خود حکومت پر قابض ہوگئے ہیں۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ کابینہ میں ارب پتیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔اب امریکہ میں ’’بندوں ‘‘ کو تول کر حکومت کی باگ ڈور پکڑائی جا رہی ہے۔
غالباً یہ امریکہ کی تاریخ میں بھی ایک نادر تجربہ ہے کہ سرمایہ دار بنفس نفیس حکومت پر غلبہ حاصل کر لیں۔ یہ ارب پتی عوام کے مسیحا بن کر آئے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔لیکن دولت کے پلڑے میں تل کر آنے والے ارب پتیوں کی حکومت نے جو پہلا بجٹ دیا ہے وہ عوام دشمنی کی انتہا ہے۔بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ بوڑھے اور نادار لوگوں سے روٹی کے ٹکڑے چھین کر سرمایہ داروں کا دامن حتی المقدور بھرا جا رہا ہے۔ عوام کو ملنے والی چھوٹی موٹی سہولتیں ختم کرکے توپیں اور جنگی جہاز خریدے جائیں گے، سیکورٹی کے بندوبست بڑھائے جائیں گے۔ اب امریکہ میں بھی عملاً وہ فضا ہے جو تیسری دنیا کے مارشل لا زدہ ملکوں میں ہوتی ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پال کینیڈی کی کتاب ’’بڑی طاقتوں کا عروج و زوال‘‘ یاد آرہی ہے۔ اگر پال کینیڈی کا تاریخ کا مطالعہ کچھ بھی درست ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکی سپر پاور کے زوال کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بجٹ عوام کے سامنے پیش کیا ہے اس کے مطابق امریکہ اس سال دفاع پر 54بلین ڈالر زیادہ خرچ کرے گا۔ دوسری سیکورٹی ایجنسیوں کے بجٹ میں دس فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ سابقہ فوجیوں پر چھ فیصد زیادہ خرچ کیا جائے گا۔ فوج اور سیکورٹی کے اخراجات میں جتنا اضافہ کیا گیا ہے اس سے زیادہ کٹوتی ایسے محکموں سے کی گئی ہے جو عوامی فلاح کے لئے کام کرتی تھیں۔ ماحولیات کے محکمے کے بجٹ میں تیس فیصد کمی کردی گئی ہے کیونکہ صدر ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ ماحولیات کی تباہی کا فسانہ چینیوں کی امریکہ کے خلاف سازش ہے۔ اسی طرح سے ہاؤسنگ اور اربن ڈویلپمنٹ کے بجٹ میں بہت کمی کردی گئی ہے۔یہ محکمہ عوام کو مناسب قیمتوں پر رہائش فراہم کرنے کا فرض سر انجام دیتا تھا۔ بوڑھے لوگ، جو چلنے پھرنے سے معذور ہو چکے ہیں ان کو کھانا فراہم کرنے والی ایجنسی’میل آن ویل‘ کو ختم کردیا گیا ہے۔ بے گھر لوگوں اور اسکول کے بچوں کے پروگراموں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اوبامہ کیئر جو غریب لوگوں کو صحت کی انشورنس فراہم کرنے کیلئے بنائی گئی تھی ختم ہونے جا رہی ہے۔ کانگریس کے بجٹ آفس کے تخمینے کے مطابق اگلے ایک سال میں چودہ ملین لوگ صحت کی سہولتیں کھو بیٹھیں گے اور 2026 تک چوبیس ملین لوگوں کی صحت کی سہولتیں ختم ہو جائیں گی۔ دوسری طرف امیروں کے ٹیکسوں میں بہت بڑی کمی کردی جائے گی۔ اسی طرح سے وہ تمام قوانین و ضوابط ختم کئے جا رہے ہیں جو کاروباری لوگوں کے راستے کی رکاوٹ بنتے تھے۔گویا کہ ؎
گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھی ارب پتی جس طرح سے بجٹ بنا رہے ہیں اس سے ان کا کٹھورپن صاف ظاہر ہوتا ہے۔ امیر طبقے کو مزید سہولتیں فراہم کرنے کے لئے جس طرح معاشرے کے لاچار اور بے بس عوام کو زندگی کی سہولتوں سے محروم کیا جا رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حاکم اشرافیہ کے لئے عام انسانوں کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ بوڑھے اور بچوں، بیماروں اور بے گھر لوگوں کے کئی ایسے پروگرام ختم کئے جا رہے ہیں جن پر چند ملین ڈالر خرچ ہوتے تھے۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب اختتام ہفتہ فلوریڈا میں گزارنے کے لئے جاتے ہیں تو ان کے ہوائی سفر کا خرچ تین ملین ڈالر ہے۔ نیویارک میں ان کی بیوی اور بچے کی سیکورٹی پر ایک ملین روزانہ کی شرح سے خرچ ہوتے ہیں۔ صدر اور ان کے خاندان پر جو کچھ خرچ ہورہا ہے اس سے بچوں، بوڑھوں اور بے گھر لوگوں کے لئے درجنوں پروگرام چلائے جا سکتے ہیں۔حکمران طبقے کے اللوں تللوں کو امریکہ کو عظیم تر بنانے کا نام دیا گیا ہے۔ کیا امریکہ کے موجودہ حکمرانوں کی پالیسیوں سے امریکہ واقعی عظیم تر سلطنت بن پائے گا؟
پال کینیڈی نے پچھلے پانچ سو سالوں میں بڑی طاقتوں کے عروج اور زوال کا تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے سلطنت روم، خلافت عثمانیہ سے لے کر موجودہ دور کی بڑی بڑی طاقتوں کے عروج و زوال کے اسبا ب پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ انہوں نے جو نتیجہ نکالا ہے اس کے مطابق اگر کسی طاقت کے دفاعی اخراجات کا تناسب ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے تو اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ جب کوئی بڑی طاقت سوشل پروگراموں کی بجائے فوجی ساز و ساماں پر سارا کچھ خرچ کرنے کے لئے تیار ہوجائے تو اس کی شکست و ریخت شروع ہو جاتی ہے۔ سوویت یونین میں یہی کچھ ہوا کہ اس کے دفاعی اخراجات ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئے۔ اب امریکہ بھی اسی ڈگر پر چل رہا ہے اور اس کا انجام بھی اچھا نہیں ہوگا۔



.
تازہ ترین