• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کرکٹ کریزی نہیں ہوں ۔کرکٹ سے میری دلچسپی اتنی ہی ہے جتنی خواجہ آصف اور عابدشیر علی کی نندی پورپاور پروجیکٹ سے رہی ہے۔دوسرے لفظوں میں اگر کرکٹ سے اپنی عدم دلچسپی بیان کروں تو برادرم حسن نثار اور ملکہ ترنم نورجہاں کے اقوال زریں یاد آتے ہیں۔حسن نثار جن جملہ اشیائے رنگ وبو سے بیزار ہیں ان میں کرکٹ بھی شامل ہے ۔ملکہ ترنم نورجہاں اورایشین بریڈ مین کالقب پانے والے کرکٹر سید ظہیرعباس کرمانی ایک ٹی وی پروگرام میں شریک تھے ۔انور مقصود جو اس پروگرام کے میزبان تھے انہوں نے ملکہ ترنم نورجہاں سے سوال کیا کہ ظہیر عباس پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے بھارت جارہے ہیں ،آپ بھی بھارت گئی تھیں اس یادگار موقع پر کیاکہیں گی ؟ نورجہاں نے کہاکہ ان کا دورہ بھی اتنا ہی کامیاب ہو جتنی عزت مجھے بھارت میںملی تھی لیکن میں تو کرکٹ دیکھتی نہیں ہوں ،مجھے سمجھ نہیں آتی یہ سب گیند کے پیچھے اتنا کیوں بھاگتے رہتے ہیں،سارا دن دھوپ میں بھی بھاگتے رہتے ہیں آخر انہیں کیامصیبت پڑی ہوتی ہے ؟نورجہاں کے اس طنزیہ تبصرے پر لوگ ہنس دئیے تو ظہیر عباس بولے ۔۔۔یہ دنیا کا اصول ہے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی شے کے پیچھے ضروربھاگتاہے ۔۔۔ ملکہ ترنم اور ایشین بریڈ مین کے مابین جملے بازی کا یہ ’’ٹی ٹونٹی ‘‘ظہیرعباس نے جیتاتھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے ظہیرعباس کے جملے پر پبلک کا اتنابڑا لافٹر آیاتھاجو پروفیشنل کامیڈینزکو بھی کبھی کبھی نصیب ہوتاہے۔
جیسا کہ عرض کیاکہ کرکٹ کریزی نہیں ہوں لیکن جب بھی کبھی عمران خان ،ویوین رچرڈ اور ظہیرعباس جیسے کرکٹر کو کھیلتے ہوئے دیکھتا تھا تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ جایاکرتاتھا۔گزشتہ دنوں حنیف عباسی’’خبرناک ‘‘ میں مہمان بنے توانہوں نے دعوت دی کہ آئیں آپ کوظہیرعباس سے ملواتے ہیں۔ظہیر عباس صاحب سے یہ ملاقات فائیواسٹارہوٹل میں ہوئی جہاں ہماری تواضع دیسی کھابوں سے کی جارہی تھی۔اگرچہ ظہیرعباس سے یہ میری پہلی ملاقات تھی لیکن چند ہی لمحوں میں ،میں ان سے بے تکلف ہوگیا۔بڑے لوگوں سے بے تکلف ہونا میرا مزاج نہیں لیکن میں اس ملاقات کو ہی غنیمت جان کر ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ باتیں کرنا چاہ رہاتھا۔بڑے ہوٹلوں میں کھانے کے ساتھ گانے کا بھی اہتمام بھی ہوتاہے۔ایک نیم گلوکار سازندوں کی مدد سے ’’منڈیا سیالکوٹیا ‘‘ گارہاتھا۔ظہیرعباس نے خوش ہوتے ہوئے کہاکہ اسے پتہ ہے کہ سیالکوٹ میر اشہر ہے اسلئے یہ گیت گارہاہے ۔میں نے بھی جھینپے بغیر کہا۔۔۔جی ہاں ! منڈیا سیالکوٹیا خواجہ آصف کیلئے نہیں آپ کے لئے ہی گارہاہے۔۔۔اس پر وہ کھلکھلاکر ہنس دئیے۔ میں نے ظہیر عباس کو بتایاکہ چاکلیٹ ہیرووحیدمراد بھی سیالکوٹی تھے بعدازاں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کراچی شفٹ ہوئے تھے۔ظہیرعباس نے بتایاکہ وہ پانچویں جماعت تک سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اس کے بعد وہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے تھے۔انہوں نے اپنے والد سید عباس کرمانی کے بارے میں بتایاکہ جب وہ پرائمری اسکول میں تھے تو ان کے والد پی ایچ ڈی کرنے کیلئے امریکہ گئے تھے۔ ظہیر عباس نے کہاکہ میں نے کرکٹ کے میدان میں سنچریاں بنائیں اور میرے والد نے طبی عمر کی سنچری بنائی ۔پچھلے دنوں وہ ایک سوایک سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے لیکن یقین جانئے والدین چاہے طویل عمری کی سنچریاں بھی بنالیں وہ جب اس جہان سے جاتے ہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ظہیر عباس کا دکھ جان کر مجھے اپنے والد غلام سرورمیراوروالدہ ثریااختر یاد آگئیں،دونوں کو بچھڑے چودہ پندرہ سال ہوگئے ہیں ۔ یہ جان کر اچھا لگا کہ ظہیرعباس کاتعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے ہے وگرنہ کرکٹ کے حوالے سے ہمارے ’’قومی ہیروز‘‘شیدے پستول اور جیرے بلیڈٹائپ قسم کے ہوتے ہیں ۔یہ لوگ میڈیا اور اشتہاری فلموں سے قومی ہیرو کاخطاب پانے کے باوجود خیال نہیں رکھتے کہ یہ اعزازکیاہے اور اس کے تقاضے کیاہیں ؟
میں نے ظہیر عباس سے کہاکہ وطن عزیز میں ویسے تو کرپشن اوپر سے لے کر نیچے تک ہرکہیں ہے لیکن کرکٹ زیادہ بدنام کیوں ہے ؟یہ سن کر پہلے وہ زیر ِلب مسکرائے پھر بولے آپ نے اپنے سوال میں جواب بھی دے دیاہے۔ایک کرپٹ سوسائٹی میں کرکٹ کو آئسو لیٹ نہیںکیاجاسکتالیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ نئے آنے والوںکی اخلاقی تربیت کی بھی ضرورت ہے ۔ظہیرعباس نے بتایاکہ میرے ساتھ ایسا سینکڑوں مرتبہ ہوا انٹرنیشنل ائیرپورٹس پرقوم کی مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں نے احترام سے ہاتھ چومے اور دعائیں دیں ۔اب آپ بتائیں اگر اس کی کوئی قیمت ہے تو پھرروپے پیسے کی کیااہمیت باقی رہ جاتی ہے۔ظہیر عباس کے ساتھ یہ ڈنر اداکار سلطان راہی کی ٹیڈی شفٹ کی طرح8 سے لے کررات 12بجے تک یعنی 4گھنٹوں پر مشتمل تھا۔اس میں بہت سی باتیں ہوئیں میں نے انہیں بتایاکہ میں جب بھی دلیپ کمار صاحب کے ہاں ممبئی پالی ہل گیاہوں تو وہاں آپ کا ذکر خیر ضرورہوا۔ظہیر عباس نے اداس لہجے میں کہاکہ اب تو دلیپ صاحب کی یادداشت متاثرہوگئی ہے وہ اپنے دوستوں کو صحیح طور پر پہچان نہیں پاتے۔سلمان خان کی بہن کی شادی پر میں جب انڈیا گیاتھا تومیں نے دلیپ صاحب کو دیکھاتھاوہ اب بہت بوڑھے ہوچکے ہیں۔آپ دلیپ صاحب کو آخری مرتبہ کب ملے ہیں ؟ظہیر عباس نے مجھ سے سوال کیاتو میں نے انہیں بتایا کہ میںدسمبر 2012میںان کے ہاں ممبئی گیاتھا لیکن تب تک دلیپ صاحب کی یادداشت قدرے ٹھیک تھی ۔ مجھے یاد ہے اس دن وہ علامہ اقبال ؒکا یہ شعر بار بار دہرا رہے تھے
کھول آنکھ، زمیں دیکھ ،فلک دیکھ ،فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
ظہیر عباس صاحب کی بیگم صاحبہ اترپردیش کے صنعتی شہر کانپور سے ہیں ۔میں نے پوچھا کہ اُترپردیش میں تو انتہا پسند یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت قائم ہوگئی ہے اب کیاہوگا؟ظہیر عباس جھٹ بولے آپ کی بھابی کبھی انڈین ہوا کرتی تھیں اب تو ایک عرصہ ہوا پاکستانیوں کی بھابی ہیں لیکن دعا کریں میکے سے ان کے تعلقات ٹھیک رہیں۔بھابیوں کے میکے سے تعلقات تو ٹھیک ہی رہتے ہیں یہ فرمائیں ہمارے بھائی اپنے سسرال کے بارے میں کیاوچار رکھتے ہیں؟ظہیر عباس نے مسکراتے ہوئے کہاکہ اس ضمن میں میرا ووٹ وزیراعظم نواز شریف کیلئے ہے ان کی سوچ درست ہے ۔نئی صدی میں ہم پرانی سوچ کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے ،بھارت سمیت دیگر پڑوسیوں سے ہمارے تعلقا ت بہتر ہونے چاہئیں۔ہمیں اپنے وسائل عوام کی فلاح وبہبود ،خوشحالی ،تعلیم اور صحت پر صرف کرنے چاہئیں لیکن ہمارا دفاع بھی مضبوط ہونا چاہیے۔ظہیر عباس نے گپ شپ کی اس ٹیڈی شفٹ میں کئی ایک یاد گار واقعات سنائے جو میرے دل ودماغ کے سیلولائیڈ پر محفوظ ہوگئے ہیں ،بھارت کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی بیٹی اور منڈیا سیالکوٹیا کے درمیاں ٹرین میں ہونے والی ملاقات پر تو فلم بھی بنائی جاسکتی ہے۔اگلی کہانی پھر سہی ۔

.
تازہ ترین