• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے ہفتے حکومت نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ و ریسرچ سینٹر (ٹرسٹ) کا سنگ بنیاد لاہور کے ایلیٹ کلاس کے علاقے ڈی ایچ اے فیز6 کے اندر ایک قطعہ اراضی پر رکھ دیا۔ ادارے بنانا، اسپتال بنانا، ریسرچ سینٹرز بنانا اور بڑے بڑے دعوے کرنا کوئی بری بات نہیں۔ اس غریب ملک کے انتہائی غریب عوام کے لئے 20ارب روپے کا یہ پروجیکٹ ہمارے نزدیک ایک انتہائی اعلیٰ درجے کی عیاشی سے کم نہیں اگر حکومت یہ 20ارب روپے سے صرف ایک سینٹر بنانے کی بجائے صوبہ پنجاب میں قائم سرکاری اسپتالوں کے شعبہ امراض گردہ اور جگر کو اپ گریڈ کرنے پر، بیرون ممالک سے اپنے ڈاکٹرز کو بہترین تعلیم دلانے اور جدید ترین مشینیں و آلات لگانے پر خرچ کرتی تو یقین کریں کہ پورے پنجاب کے گردوں اور جگر کے مریضوں کو علاج کی سہولتیں میسر آ جاتیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ پنجاب کے کئی سرکاری ٹیچنگ اسپتال اور ڈسٹرکٹ سطح کے اسپتالوں میں جگر اور گردوں کی علاج گاہیں نہیں۔ ڈائیلسز کی سہولت نہیں یا پھر ڈائیلسز کی مشینیں نہیں۔ کچھ دیر کو یہ بات مان لیتے ہیں کہ پی کے ایل آئی ایک ہزار بستروں کا اسپتال بن گیا۔ جس ملک میں ہر سال لاکھوں گردوں اور جگر کے نئے مریض آ رہے ہیں وہاں پر ایک ہزار بستروں کا یہ ادارہ کیا کرے گا۔ ہمیں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کی نیت پر ذرہ برابر شبہ نہیں مگر ان کے اردگرد بعض ایسے افراد ہیں جو شہباز شریف کو زمینی حقائق سے بہت دور رکھے ہوئے ہیں۔ کتنی عجیب اور مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ زمین سرکار کی، پیسہ سرکار کا اور اس سرکاری اسپتال کو چلانے والے تمام افراد کا تعلق ایک ایسے پرائیویٹ اسپتال سے ہے جو اس ملک کا مہنگا ترین اسپتال ہے۔ جہاں پر غریب مریض علاج کا تصور نہیں کرسکتا، جو پیسے نہ ہونے پر لاش بھی روک لیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک صحافی کی لاش کو پیسے نہ ہونے پر کئی گھنٹے اس اسپتال نے روکے رکھا۔ آج کل امریکہ میں بعض پاکستانی ڈاکٹروں کو ان کی ناپسندیدہ اور میڈیکل اقدار کے خلاف مختلف حرکات اور کام پر امریکہ میں پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ کچھ تو پاکستانی ڈاکٹروں کے لائسنس کینسل ہوچکے ہیں اور ایک دو تو اندر بھی ہیں۔ اب یہ ڈاکٹرز وہاں سے پاکستان آکر یہاں کے لوگوں اور حکومت کو لوٹنا اور بے وقوف بنانا چاہتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ آنکھیں بند کرکے کسی پر اتنا اعتماد نہ کرے اور دوسرے اس وقت جس پر اندھا دھند اعتماد کیا جا رہا ہے وہ انتہائی زیادہ تنخواہوں پر اپنے دوست اور احباب کو اکٹھا کر رہا ہے دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو باہر سے لایا جا رہا ہے اس سے زیادہ تجربے کے حامل اور لائق ڈاکٹرز ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ مگر ہمارے ہاں کچھ لوگ انگریزی زبان، لیپ ٹاپ کی پریزنٹیشن اور خوبصورت نعروں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ کتنی حیران کن بات ہے ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اس اسپتال میں غریبوں کو علاج کی سہو لتیں ملیں گی۔ دوسری طرف اس کی مارکیٹنگ کے لئے پوری فوج رکھی گئی ہے۔ آخر مارکیٹنگ کس بات کی؟ بعد میں آپ نے بھی تو قربانی کی کھالوں اور زکوٰۃ پر ہی آ جانا ہے تو بھلا مارکیٹنگ کس بات کی؟
وزیراعلیٰ نے اس تقریب میں ڈاکٹروں اور دکھی انسانیت کے حوالے سے بڑی درد مندانہ باتیں کیں اور ہمیں خوشی ہے کہ وہ ملک کے غریب مریضوں کے لئے نہ صرف تڑپتے ہیں بلکہ وہ شعبہ صحت کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں جو انمول اور بہترین ہو۔ اس تقریب کے حوالے سے پی کے ایل آئی نے بڑا خوبصورت اور انتہائی قیمتی کتابچہ موٹے کاغذ کے بیگ انگریزی میں شائع کئے۔ ایک طرف سپریم کورٹ کے آرڈرز ہیں کہ اردو کو فروغ دیا جائے تو دوسری طرف کتابچے کا انگریزی میں شائع کرنا اور وہ بھی انتہائی قیمتی، سمجھ سے باہر ہے۔
ارے دوستو! اس تقریب میں جن لوگوں نے شرکت کی وہ بے چارے تو اردو بھی بڑی مشکل سے سمجھتے تھے۔ ہم نے جو لوگ اس نیم سیاسی جلسے میں شریک تھے سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی خاص سمجھ نہیں آئی۔ اس کتابچے کو اردو میں شائع کرتے اور جو معلومات اس میں گردوں اور لیور کے حوالے سے دی ہوئی تھیں ان کو اگر اردو زبان میں شائع کرتے تو اس سے یقیناً لوگوں کو فائدہ ہوتا۔ ہمارے شعبہ صحت میں پتا نہیں کس کے کہنے پر ایسی خواتین کی بڑی تعداد کو رکھا جا رہا ہے جن کو صرف انگریزی، لیپ ٹاپ چلانا اور پریزنٹیشن بنانا آتی ہے، عملی طور پر ان کو شعبہ صحت کے مسائل کے بارے میں الف، ب کا پتا نہیں۔
پی کے ایل آئی کے تمام انتظامی اور اعلیٰ عہدوں پر ایک پرائیویٹ اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو رکھا گیا ہے۔ اب بھلا کوئی یہ بتائے کہ وہ اپنے ادارے کے ساتھ مخلص ہوں گے یا پھر پی کے ایل آر کے ساتھ۔ ہم کسی کا نام نہیں لکھ رہے بلکہ اس کتابچے میں سب کچھ درج ہے۔
ادارے کے سربراہ ایک ایسے ڈاکٹر ہیں جو ایک طویل مدت سے امریکہ میں کام کرتے رہے۔ انہیں عملی طور پر غریب مریضوں کی مشکلات کا پتا نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ادارے کے سی ای او فرانزنک سائیکاٹرسٹ ہیں گردوں اور جگر کے اسپتال میں فرانزنک سائیکاٹرسٹ کا ہونا سمجھ سے باہر ہے۔
چلیں جی آپ نے لیور اور گردے ٹرانسپلانٹ کر دیئے۔ یقیناً آپ کے ادارے میں زیادہ تر غریب مریض ہی آئیں گے آپ نے ان کے مفت گردے اور جگر تبدیل کر دیئے۔ ارے بابا اب ان مریضوں کو ساری عمر جو ہر ماہ ہزاروں روپے کی ادویات کھانی ہیں وہ کہاں سے لیں گے؟ اور آپ ہر روز کتنے مریضوں کے گردوں اور جگر کی پیوند کاری کریں گے۔
اعضاء کی پیوند کاری کے قانون کے مطابق صرف سگا رشتہ دار یعنی بھائی، بہن، ماں باپ وغیرہ ہی اپنا گردہ/جگر دے سکتے ہیں۔ تو ذرا دیر کو سوچیں کہ ہمارے ملک میں کتنے سگے رشتہ دار یہ قربانی دینے کو تیار ہوں گے؟ اور جس کا کوئی رشتہ دار نہ ہوا، وہ کیا کرے گا؟
دوسری طرف آپ کے پاس لیور اور کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجنوں کی شدید کمی ہے۔ اس ادارے کے قیام کے بعد پاکستان کے ہر دور دراز کے علاقوں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہوگا کہ مریض کو لاہور لے جائو، اور یہاں بھی پھر مارپیٹ اور لمبی لمبی تاریخیں ملیں گی۔ جس کے نتیجے میں کئی مریض فوت ہو جائیں گے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمیں بیماری کو روکنے کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ ویکسینیشن پر توجہ دینی چاہئے۔ گردوں اور لیور کے ٹیسٹوں کے بارے میں عوام کو بتانا چاہئے کیونکہ بعض اوقات یہ معمولی ٹیسٹ انسان کو کسی بھی پیچیدگی سے بچا سکتے ہیں۔ ہمارے لوگ کشتہ جات، عطائیوں کی ادویات کھا کر اور غلط علاج اور بروقت اپنے مرض کی تحقیق نہ کرانے کی وجہ سے جگر اور گردوں کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

.
تازہ ترین