• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب بھی وائٹ ہاؤس کے صحافیوں میں رگھبیر گوئل کا ذکر ہو تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔یہ تو آپ میں اسے اکثر لوگ جانتے ہوں گے کہ ہفتہ اتوار کو چھوڑ کر باقی سب دنوں میں وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس ہوتی ہے جس سے وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری خطاب کرتے ہیں۔ ساری دنیا کے بڑے میڈیا کے نمائندے اس پریس کانفرنس میں شریک ہوتے ہیںبہت سے بڑے چینلز اور اخباروں کے متعدد رپورٹر ہر وقت وائٹ ہاؤس میں براجمان رہتے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے وائٹ ہاؤس کی پریس کانفرنس میں رگھبیر گوئل بھی شامل ہوتے ہیں۔ پریس سیکرٹری کو جب بھی مشکل سوالات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ گوئل صاحب کو سوال کی دعوت دیتے ہیں۔ بات دنیا کے کسی حصے کی بھی ہو رہی ہو گوئل صاحب فوراً پاکستان اور ہندوستان کے بارے میں کوئی سوال پیش کر دیتے ہیں۔ظاہری بات ہے کہ سیکریٹری کو مشکل سوالات سے بچنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ مسکرا کر گوئل صاحب کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
مختلف صدور کے زمانے کے وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری گوئل صاحب کی خدمات سے محظوظ بھی ہوتے ہیں اور مشکل سوالات سے بھی بچتے ہیں۔ چنانچہ وائٹ ہاؤس کے پریس کے حلقوں میں اس طرح کےموقع کے لئے ’گوئل لمحہ‘ (گوئل موومنٹ) کی اصطلاح عام ہو گئی ہے۔ بلکہ گوئل تو اب فعل کے طور پر بھی استعمال ہونے لگا ہے (یعنی گوئل کرنا، گوئل ہونا وغیرہ)۔ اردو میں اسی بات کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’اب وقتِ گوئل ہے‘ یا بات گوئیلا دی گئی۔ پاکستان کے میڈیا میں پاکستان میں امریکیوں کو ویزے دینے کا موضوع اسی طرح کا ہے جیسے رگھبیر گوئل کے سوالات۔ جب پاکستان میں تمام موضوعات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں تو سابقہ سفیر حسین حقانی کے کسی مضمون کے کسی حصے پر میڈیا سے لے کر قومی اسمبلی و سینیٹ تک میں بحث شروع ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں کئی سالوں سے وقت گوئل آتا جاتارہا ہے۔ فرق شاید یہ ہے کہ اس میں بنیادی محرک حسین حقانی صاحب واشنگٹن میں بیٹھے مسکراتے ہوئے پاکستان کے گوئلانے کا مزہ لیتے رہتے ہیں۔
اس مرتبہ بات حسین حقانی کے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک کالم سے شروع ہوئی جس میں سابقہ سفیر نے دعویٰ کیا تھا کہ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی حقیقت حال سے پیشگی آگاہ تھے۔ وہیں سے بات امریکیوں کو ویزہ دینے کی چل نکلی۔ مسلم لیگ (ن) کے وزیر جو پاناما لیکس کے موضوع سے توجہ ہٹانا چاہتے تھے اس بحث کے محرک بن گئے اور انہوں نے مطالبہ کردیا کہ سابقہ سفیر کے انکشافات کی روشنی میں ایک کمیشن تشکیل دیا جانا چاہئے جو اس معاملے کی تہہ تک پہنچے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ جب اس طرح کے معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے تو بہت سے پردہ نشینوں کے نام ہی نہیں سامنے آئیں گے بلکہ پورا حکمراںطبقہ بے لباس دکھائی دے گا۔ اگر اس معاملے کی تہہ تک جانے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔ اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ نہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) یہ کام کر سکتے ہیں۔ تو پھر ایک اور کمیشن بنانے کا مقصد؟
رہا امریکیوں کو ویزہ دینے کا سوال تو یہ تو واضح ہو گیا کہ امریکیوں کو ویزے وزیر اعظم کی ہدایت پر جاری کئے گئے تھے۔ ویسے تو امریکیوں کی مہربانی تھی جو وہ ویزے لے کر پاکستان آنا چاہتے تھے وگرنہ وہ بغیر ویزوں کے بھی آتے رہے ہیں۔ یہ کافی پرانی روایت ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں بڈھ بیر کے خفیہ ہوائی اڈے سے یو ٹو جاسوس تیاروں کو اڑانے والے ویزے لے کر پاکستان نہیں آتے تھے۔ اور پھر مشرف کے زمانے میں شمسی ائیر بیس پر آنے والے امریکی ویزےکی پابندیوں سے آزاد تھے۔ ضیاء الحق کے زمانے کی تفتیش کی جائے تو افغان جہاد لڑوانے والے امریکیوں پر بھی کوئی خاص پابندیاں نہیں تھیں۔ اس سارے پس منظر میں ویزے جاری کرنے کے بارے میں سوال کرنا ایسا ہی جیسا کہ مسٹر گوئل کرتے ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے احوال سے واقف ہر صحافی جانتا ہے کہ بلڈنگ کا کونسافلور ڈیفنس اتاشی اور ان کے لمبے چوڑے عملے کے تصرف میں ہے۔ حال تو یہ ہے کہ سفارت خانے میں پاکستانی کمیونٹی سے رابطوں کے لئے جو افسر پاکستان سے آتے ہیں ان کا تعلق پولیس یا کسی خفیہ ایجنسی سے ہوتا ہے۔ ایسے افسروں کی ذمہ داری میں کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے علاوہ ہر کام شامل ہوتا ہے۔ چنانچہ کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ جس سفارت خانے میں ڈیفنس اتاشی اور وزارت داخلہ کے متعدد افسران موجود ہوں وہاں کونسا سفیر اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف اس طرح کے ویزے جاری کر سکتا ہے جس کا الزام حسین حقانی کو دیا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو معاملہ صاف ہے۔اسٹیبلشمنٹ کی منظوری سے وزیر اعظم واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کو ویزے جاری کرنے کے بارے میں خط لکھتے ہیں اور سفارت خانہ امریکیوں کو جو ویزے جاری کرتا ہے اس میں ڈیفنس اتاشی سے لے کر وزارت داخلہ تک کے افسروں کی منظوری شامل ہوتی ہے۔ اگر اس کی تفتیش کے لئے کوئی کمیشن بھی بن جائے تو یہی بات ثابت ہو گی اور ایک مرتبہ پھر سے کمیشن کی رپورٹ کو دبا دیا جائے گا۔
البتہ حسین حقانی پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ میں اس طرح کے راز افشا کرکے جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا۔ لیکن واشنگٹن کے وہ حلقے جو پاکستان سے تھوڑا بہت تعلق رکھتے ہیں پہلے ہی ان سب حقائق سے واقف ہیں۔ ان کے لئے اولین سوال یہ ہے کہ اسامہ بن لادن اتنے دنوں تک پاکستان میں کیسے رہائش پذیر رہا۔ حسین حقانی کا یہ کہنا درست ہے کہ میڈیا کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہئے نہ کہ ویزے کس نے کیوں اور کب جاری کئے۔ اگر کسی ملک سے لمبی چوڑی مالی امداد لی جاتی ہے تو اس کے لوگوں کو ویزے تو جاری کرنے پڑیں گے۔ پاکستان میں درجنوں ایسے مسائل ہیں جو میڈیا کی توجہ کے طالب ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ پاکستانی میڈیا مستقل مسٹر گوئل کی ڈگر پر چل رہا ہے۔ اب تو ویزوں کا مسئلہ اس تواتر سے اٹھایا جاتا ہے کہ ’’وزیئت‘‘ کی اصطلاح صحافتی زبان میں شامل کر لینا چاہئے۔


.
تازہ ترین