• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج بیٹھے بٹھائے ایک الٹا سا سوال ذہن میں آیا ہے جس کا جواب علمائے کرام ہی دے سکتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگوںکا رجحان مذہب کی طرف بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ رائے ونڈ کے سالانہ تبلیغی اجتماع کے شرکا میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اب یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے اور کہا جاتا ہےکہ حج کے بعد اپنے شرکا کی تعداد کے لحاظ سے اسے مسلمانوں کا دوسرا بڑا اجتماع قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس اجتماع کے آخری دن ہونے والی دعا میں لاکھوں دوسرے مسلمانوں کے علاوہ صاحبانِ اقتدار اور سیاستدان بھی شریک ہوتے ہیں۔ اسی طرح دوسری دینی جماعتوں کے لاکھوں کے اجتماع میر ےاس دعوے کا ثبوت ہیں کہ ہم پاکستانیوں کا رجحان مذہب کی طرف دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے۔ہر سال عمرے کےلئے جانے والوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں مسجدیں لبالب بھری ہوتی ہیں۔ تراویح اور شبینہ میں لوگ ساری ساری رات خدا کی عبادت کرتے ہیں اور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان کی ماڈرن کلاس بھی انگریزی اصطلاحات کا لبادہ اوڑھ کر ہی سہی، تصوف اور مراقبوں وغیرہ کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ پیری مریدی اور تعویز گنڈوں کا سلسلہ بھی پہلے سے زیادہ نظر آتا ہے۔
ان امور کے علاوہ ایک اور چیز جو دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ میرا جو کوئی دوست مجھے چند برسوں بعد ملتا ہے اس کےچہرے پر لمبی داڑھی ہوتی ہے، مونچھیں مونڈی ہوتی ہیں، شلوار ٹخنوں سے اونچی ہوتی ہےاور سامنے والی جیب میں مسواک جھانک رہی ہوتی ہے۔ جو دوست اس حلیے میں نظر نہیں آتے ان میں سے بھی بیشتر اندر سے بدل چکے ہوتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں نماز روزے کی پابندی ہوچکی ہوتی ہے۔ میں نے اوپر کی سطور میں جن لوگوں کا احوال بیان کیا ہے، ان کا تعلق کسی ایک طبقے سے نہیں بلکہ تمام طبقوں سے ہے چنانچہ ان میں تاجر، سیاستدان، جرنیل، صاحبانِ اقتدار، پروفیسر، وکیل، جج، افسر، کلرک، چپڑاسی، معمولی دکاندار سبھی لوگ شامل ہیں۔
لیکن جو سوال میرے ذہن میں کلبلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ مذہب کی طرف رجحان کا یہ عمل مرحوم ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوتاہے اور اس کے بعد کے ادوار سے ہوتاہواآج اپنے عروج پرپہنچا نظر آتاہے۔ آج یہ اپنے تکمیلی مراحل میں ہے۔ جو لوگ مذہب کی طرف راغب ہو رہے ہیں ان کی ایک بڑی تعداد کی زندگیوںمیں سوائے عبادت اور حلیے کے کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ جوظالم صنعتکار ہے اس کااپنے مزدوروں کےساتھ رویہ ظالمانہ ہی رہتا ہے، راشی افسر رشوت لینا بند نہیں کرتا، مزدور اپنا فرض دیانتداری سے ادا نہیں کرتا، سیاستدان جن میں مذہبی غیرمذہبی ہر طرح کے سیاستدان شامل ہیں، اپنی ’’سیاست‘‘جاری رکھتے ہیں۔ صاحبانِ اقتدار کے رویے بقول اقبال طریق کوہ کبن میں بھی ’’پرویزی‘‘ ہی رہتے ہیں۔ وکیل، جج، پروفیسر سبھی اپنی پنی ڈگر پہ چلتے ہیں۔ آخر مذہب کی یہ کون سی شکل ہے جو ہمارے ہاں پروان چڑھ رہی ہے جس میں عبادت مسجد تک محدود ہو کررہ گئی ہے جبکہ مسجد صرف سجدہ گاہ ہے۔ اس کے باہر ساری دنیا عبادت گاہ کادرجہ رکھتی ہے۔ کیاہم نے کہیں یہ تو نہیں سمجھ لیا کہ خدا ہماری نماز، دعا اور روزہ کا محتاج ہے اوراسے ہمارے باقی اعمال سے کوئی سروکار نہیں یا کہیں ہمارا مجرم ضمیر اپنے بچائو کیلئے مذہب کے بجائے مذہب کی شارٹ کٹ کی طرف تو نہیں لے جارہا؟دین اسلام تو نفس کی قربانی مانگتا ہے جو شاید سب سے مشکل کام ہے۔
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
نماز صرف پڑھنے کی چیز نہیں، نماز ’’قائم‘‘ کرنےکیلئے ہے۔ مجھے علما سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ کیا امت نمازوں کی طرف جارہی ہے یا اس کی سمت کوئی اور ہے؟ اور اگر ہمارا معاشرہ واقعی اتنا مذہبی ہوگیا تو پھر جو کچھ ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں وہ سب کیا ہے؟



.
تازہ ترین