• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملّا عمر کی ہلاکت کے بعد الزامات اور متنازع بیانات کا جو سلسلہ شروع ہوا اس سے پاک افغان تعلقات بدترین اور سنگین صورتحال سے دوچار ہوتے چلے گئے، دونوں ملکوں میں ہونے والے دہشت گردی کےحالیہ واقعات اور سرحدوں پر چڑھائی نے جلتی پر تیل ڈالا ہے، ناکامیوں کا اعتراف اور سیکورٹی آپریٹس کو بہتر بنانے کی بجائے ان واقعات کےالزامات ایک دوسرے پر ڈالنے کی روایت نے اختلافات اور غم و غصے میں اضافہ کیا ہے، ایک دوسرے کی سرزمین استعمال نہ کرنے دینے کے دعوے اور ساتھ ہی اک دوجے کے ہاں چھپے دہشت گردوں کی فہرستوں کے تبادلے نے بحرانی کیفیت کو مزید گہرا کیا ہے..... اسی دوران لندن میں افغان امن کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے، سرتاج عزیز نے افغان شرکا پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان ڈیورنڈ لائن (پاک افغان سرحد) پر بارڈر مینجمنٹ سسٹم محض اپنی سلامتی کے لئے نہیں بلکہ دوطرفہ مفاد میں لگا رہا ہے، ساڑھے تین سو سے زائد سرحدی چوکیاں بھی دہشت گردوں اور ناپسندیدہ عناصر کی دوطرفہ نقل وحمل کی روک تھام کے لئے قائم کی جارہی ہیں۔ پاکستان کے کوئی منفی عزائم نہیں، دوطرفہ امن کی خاطر افغانستان بھی اپنی طرف ایسے حفاظتی میکانزم لگانے میں آزاد و خودمختار ہے، لندن کانفرنس میں موجود افغان حکام نے پہلی مرتبہ پاکستان کا حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن اور پاکستانی طالبان (تحریک طالبان) کو پراکسی وار کے لئے استعمال نہ کرنے کے دیرینہ موقف کو تسلیم کرلیا، افغان حکام نے ان حساس معاملات پر مزید ردعمل اور سخت مخالفت کی بجائے خاموش رہنے کا پیغام بھی دے دیا ہے، پاکستان کے افغان طالبان سے امن مذاکرات کی سہولت کاری اور مصالحتی کوششوں کے اقدامات کی بھی کسی حد توثیق کی گئی ہے، یہ بھی اہم ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف دونوں طرف سے مسلسل کارروائی پر اتفاق کیا گیا، افغان طالبان سے امن مذاکرات کے لئے چین، پاکستان اور امریکہ سمیت مشرق وسطیٰ کی کوششوں کو سراہا گیا ہے، لندن کانفرنس کے فوری بعد پاکستان نے عہد کی سچائی کی خاطر جلدبازی میں بند کردہ افغان سرحد کو دوبارہ کھول کر مثبت پیغام بھی دیا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ لندن کانفرنس میں ’’سب اچھا‘‘ کی اطلاعات کے بعد بھی بداعتمادی اور عدم اطمینان دوستانہ تعلقات کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے۔ بڑا اور اہم چیلنج دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست بات چیت کے لئے ٹوٹے رابطوں کو کسی صورت بحال کرنا ہے، پاکستان سمجھتا ہے کہ اس کے ہاں دہشت گردی کی سرپرستی افغانستان میں ہو رہی ہے جبکہ افغان حکومت کابل اور دیگر شہروں میں دہشت گرد واقعات سمیت ایک صوبے پر طالبان کے حالیہ قبضے کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہی ہے، زمینی حقائق یہ ہیں کہ افغانستان میں امریکی جنگ اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے اور اس کے مفادات و عزائم میں کمی آچکی تاہم افغانستان امن کا گہوارہ نہیں بن سکا۔ دوسری طرف پاک افغان کشیدہ تعلقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغان سرزمین پر سرمایہ کاری کی آڑ میں بھارت کے پاکستان دشمن اقدامات میں اضافہ ہوا ہے جس کی پاکستان عالمی فورمز پر بارہا ہرطرح سے شکایت بھی کرچکا ہے، مخدوش حالات میں ایک اہم پیش رفت امریکہ کی عدم دلچسپی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس کی اچانک انٹری بھی ہے، ایشیائی خطے بالخصوص افغانستان و پاکستان میں داعش کی مسلسل مضبوط ہوتی پوزیشن اور کارروائیاں روس کی پریشانی کا سبب ہیں جس کی بیخ کنی کےلئے افغان امن کانفرنس اسی ماہ کے وسط میں ماسکو میں منعقد کروائی جارہی ہے، چین، بھارت اور مشرق وسطیٰ سمیت خطے کے 14اہم اسٹیک ہولڈرز شریک ہوں گے، آخری اطلاع تک غالبا امریکہ مدعو نہیں۔ گویا ایک طرف اقتصادی راہداری، تیل وگیس کے وسائل و ترسیل سمیت پائیدار ترقی کے لئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز اور دوسری طرف ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا ارادہ کرنے والوں کےخلاف پیش بندی کی جارہی ہے، امن عمل کےحوالے سے غیرسرکاری رابطہ کاری میں بھی تیزی آئی ہے، پاکستان کےسینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کی جانب سے حال ہی میں پاک افغان ٹریک 15ڈائیلاگ کی کوششوں نے دوطرفہ موقف سمجھنے اور عدم اعتماد کی گتھیوں کو سلجھانے کا راستہ دیا ہے، سرحدوں سے بالاتر ہوکر بات چیت کے ٹھوس عمل کے لئے دونوں ملکوں کے ارکان پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کے ماہر افراد کی مشترکہ کمیٹی کام جاری رکھے ہوئے ہے، ماہر سلامتی امور امتیاز گل کے مطابق پاکستانی سول وعسکری اسٹیبلشمنٹ کا افغانستان میں امن کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ اور حساس معاملات کو حل کرنے کا مشترکہ لائحہ عمل حوصلہ افزا ہے، مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور مشیر سلامتی جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نےدوطرفہ امن اور بات چیت کو پاکستان کا مفاد قرار دے کر الزامات کے لامتناہی سلسلےکو روکنے کا بیڑا اٹھایا ہے جس کے مثبت نتائج آسکتے ہیں، پاکستان نے واضح کیا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد ردالفساد سمیت تمام کارروائیاں حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گرد گروپوں کےخلاف ہیں، صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے پاکستان کی کوششیں اپنی جگہ تاہم سلامتی کے معاملات کےساتھ ساتھ، معیشت و تجارت، تعلیم، اسپورٹس، کلچر اور قیدیوں کےدوطرفہ معاملات پر بھی بات فوری شروع کی جانی چاہئے، تمام معاملات کو فوری آگے لےجانا اتنا آسان نہیں تاہم دوطرفہ بیک چینل یا ٹریک ٹو اقدامات مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، دفاعی تجزیہ کاروں کی رائے میں حال ہی میں پاکستان کی وفاقی کابینہ کی جانب سے افغانستان کے لئے چار کیٹیگریز میں ویزا رجیم کا آغاز پاکستان کے اندر اور افغانستان کےباشندوں کی سیکورٹی کے لئے ایک مثبت قدم ہوسکتا ہے اس سلسلے میں متعلقہ پاکستانی حکام افغان حکومت کو آن بورڈ لے کر عمل درآمد کو موثر بناسکتے ہیں، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ افغانوں کی 40 برس تک مخلصانہ مہمان نوازی پاکستان کی نیک نامی کا سبب ہے تاہم گزشتہ ایک دو دہائیوں کے ناپسندیدہ فیصلوں اور مرضی کا سلوک کرنے جیسے رویوں نے تقریباً سب کچھ ڈس کریڈٹ کردیا ہے، ہمیں اب سوچنا ہے کہ مسلسل جنگوں سے تباہ حال افغانوں کو بدستور محکوم اور لاچار و مجبور سمجھنا دوراندیشی ہے نہ وقت کا تقاضا۔ افغانوں کو اپنے فیصلے خود کرنے دینے میں تعاون کیا جائے، اسی کے ساتھ افغانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ہمسائیگی اور برابری کےتقاضوں کو ہم آہنگ کرنے سمیت امن کا قیام اکیلے پاکستان نہیں کرسکتا، سلامتی و معاشی سمیت دیگر مسائل حل کے لئے دوطرفہ اور ملٹی ڈائمنشنل موثر رابطوں اور ٹھوس مذاکرات کا آغاز ضروری ہے، حالات تقاضا کر رہے ہیں کہ تعلقات کو سنجیدہ شکل دینے کے لئے وزیراعظم نوازشریف (جو وزیرخارجہ کا قلم دان بھی رکھتےہیں) سیاسی و ملٹری لیڈرشپ کے ساتھ خود افغانستان جائیں تاکہ افغان قیادت کے کم مائیگی کے احساس میں کمی اور باہمی اعتماد میں اضافہ ہوسکے۔ دوسرا راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں حکومتیں غیرسرکاری سطح پر کی جانے والی کوششوں سے فوری فائدہ اٹھائیں تاکہ کم از کم غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے،بلاشبہ ایک دوسرے کے ذہنوں کو سمجھنے اور دلوں کو پرکھنے سے مزاجوں اور رویوں میں بہتری لائی جاسکتی ہے لیکن شرط ایک ہی کہ یہ پرخلوص اور نیک نیتی پر مبنی ہو.....!



.
تازہ ترین