• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میںا سٹیج پر بیٹھا تھا اور تیسری مرتبہ آنےوالی کال نےمجھےپریشان کردیامیری پریشانی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ کال تیسری مرتبہ کیوں آئی ہے اور نہ ہی میں اس وجہ سے پریشان تھا کہ میں میڈیا سیمینار کےحوالے سے ہونے والی تقریب میںا سٹیج پر بیٹھے ہونے کی وجہ سے کال نہیں سن پارہا تھابلکہ اس وجہ سے پریشان تھا کہ میرے موبائل فون کی اسکرین پر کال کرنے والے کی آئی ڈی یا نمبر نہیں آرہاتھامجھے کبھی ایسی کال نہیں آئی تھی اور اس وجہ سے میرے ذہن میں طرح طرح کے وسوسے آرہےتھے جو مثبت بھی تھے اور منفی بھی تھے ۔
میںان دنوں کراچی میں ہوں اور کراچی کی گہما گہمی اور مصروفیت دیکھ کر یہ احساس ہوتاہےکہ یہاں کا ہر شخص اس فارمولےکے تحت کام کر رہاہے کہ ــ’’ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ‘‘ اور ہمارے راولپنڈی ا سلام آباد کےمقابلےمیں اگر کراچی کا موازنہ کیا جائے تو ویٹرسےلے کر اعلیٰ افسراور نائب قاصد سے لے کر ادارےکے سربراہ تک اور موبائل چھین کر جانےوالےسےلےکر چھوٹی،بڑی واردات کرنے والے سبھی اسمارٹ اندازاور تیزی سے کام اور واردات ڈالتے ہیں کراچی جب بھی آناہوتاہے تو گھر والےاوردوست احباب احتیاط کی زیادہ تاکید کرتے ہیں۔ اس لیےکراچی میں قیام کے دوران آپ کا دماغ بھی شکوک اور وسوسوں میں گھرا رہتاہے اور اسی لیے کراچی میں قیام کے دوران میرے موبائل پر آنے والی کالزنےمجھے تھوڑا ساپریشان کر دیاتھا ۔کراچی میں قیام کے دران تمام تراحتیاط اور گھروالوںکی تاکیدکےباوجودمیںگذشتہ روز سولجر بازار کے اس اسکول کی عمارت کو دیکھنے گیاجسے قبضہ مافیہ نےبلڈوزرکے ذریعےگرانےکی کوشش کی تھی بلکہ اسکا کچھ حصہ منہدم بھی کردیاتھااورجب اسکول کی اس عمارت کو دیکھنےکےلیے پہنچا تو مجھے وہ اسکول کی عمار ت گری ہوئی اینٹیں ، بلاک یاسیمنٹ اورپینٹ کے اکھڑے ہوئےحصے نہیںبلکہ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہاں میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس بچوں کی ایک بڑی تعداد بیٹھی ہے کچھ بچے گھروںکےگندےبرتن دھور رہے ہیں، توکچھ بچے ٹائروں کی دکان پر پنکچر زلگانےکا کام کر رہے ہیںکچھ بھاگ بھا گ کر گاہکوںکے سامنے روٹی چائے اور سالن رکھ رہے ہیں کچھ بچے اپنے زخمی جسموںکے ساتھ ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہےہیںاور کچھ بچے ان گھروں کے مالکان کے ظلم ستم سہہ رہےہیں جن گھروں میں دو وقت کی روٹی اور رات گزارنے کے لیےگھرکے ایک کونے چندگھنٹوں کےلیے نیند کی عارضی موت میں گزارنے کےلیے کام کر تےہیں، لیکن اس سے زیادہ خطرناک وہ بچےتھےجن کےچہروںپر کرختگی تھی اور وہ ہاتھوں میںپسٹل اٹھائےہوئےہر پیدل ،موٹر سائیکل یا گاڑیوںپر آنےجانےوالوں کو روک روک کر ان سے موبائل چھین رہےتھے ،خواتین کے زیوارت اتروا رہےتھےیا ان کے پر س لے کر اپنے تھیلوںمیں ڈال رہےتھے اور میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اسکول کے گرنے والے کچھ حصے کے قریب مافیہ کے وہ لوگ کھڑےقہقے لگا رہےہیںجو لوٹ مار ، کرپشن اور ملکی وسائل کو لوٹ کر اپنےاثاثےاوربینک بیلنس بنا رہے ہیں جبکہ کتابو ں اور کاپیو ںکے اوراک اڑے جا تےتھے۔ یہ ساری صورتحال محسوس کرکےمجھےسخت تکلیف ہو رہی تھی میں کسی سے کچھ پوچھے ، کچھ جانے بغیر واپس گاڑی میں بیٹھ گیا اور ہوٹل کی طرف روانہ ہوگیا لیکن قبضہ گروپ مافیہ کے قہقے میرے کانوںمیںکھولتےہوئےسیسے کی طرح تکلیف کا باعث بن رہے تھے اور انہی قہقوںمیںایک اور دبی دبی آواز دل کو زخمی کر رہی تھی جس میں بہت مدھر لیکن لاغر آوازمیںکچھ بچے کہہ رہےتھے ’’ہمیں دشمن کے بچوں کوپڑھاناہے ‘‘ سولجر بازارکے گرے ہوئے اسکول کے حوالے سے اپنے جذبات شئیر کرنے کا مقصد یہ سوال اٹھانا تھا کہ کیا کبھی ایسے مافیہ کو سزاملے گی یا تحقیقاتی کمیٹیاں ہی بنتی رہیں گی اور پھر یہ مافیہ کے لوگ وکٹری کا نشان بناتےہوئے ’’باعزت ‘‘رہاہو جائیںگے ان ساری سوچوںمیں غرق اور میڈیا سیمینا ر کی مصروفیت میں ’’Unknown‘‘ کالز کی پریشانی سے میں جھنجھلا گیا اور میڈیا سیمینار ختم ہوا تو ایک مرتبہ پھر کال نے مجھے جھنجھوڑدیا لیکن اﷲکا شکرہے کہ کال ہمارےاپنےایک قابل قدر ادارے سے تھی انہوںنے مجھ سے پوچھا کہ آپکی کوئی چوری تو نہیں ہوئی میںنے انکار کرتےہوئے کہا کہ البتہ میری اہلیہ کے دو لیپ ٹاپ ضرورچوری ہوئےہیں جس پر کال کرنےوالے افسر نے مجھے بتایا کہ وہ دونوں لیپ ٹاپ مل چکے ہیں۔میں اب اس تفصیل میں تو نہیں جانا چاہتا کہ وہ لیپ ٹاپ ریکورکرنے میں کتنا اسمارٹ ایکشن تھا اور ان میں سے ایک لیپ ٹاپ میں پڑی میری شادی کی سی ڈی کے ذریعے مجھ تک پہنچنا کیسے تھا لیکن سارا واقعہ سن کر میں اس ادارے حوالےسے اتنا ضرور کہوں گا کہ ’’ ویل ڈن ‘‘۔یہ ویل ڈن میں اپنے لیپ ٹاپ ملنے پر نہیں بلکہ ان کی مستعدی اور کیے جانےوالےایکشن کےحوالےسےکہہ رہا ہوں۔

.
تازہ ترین