• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میڈیا کا ایک بہت بڑا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اس نے پاناما لیکس کے حوالے سے حزب ِ اقتدار اور حز ب ِ اختلاف دونوں جماعتوں کے سرکردہ رہنمائوں سے باربار یہ بات کہلوائی کہ وہ سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ بہرحال قبول کریں گے۔ کاش ان سے اسٹامپ پیپر پر انگوٹھے بھی لگوالئے ہوتے صرف ان سے نہیں کچھ اینکرز سے بھی۔ بہرحال صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے چاہنے والوں کا جشن منانا تو سمجھ میں آتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے کسی فرد پر فرد ِ جرم عائدنہیں کی گئی البتہ دو فاضل ججوں نےاس ضمن میں اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کیا جس کی وضاحت کالم کےآخر میں کروں گا تاہم عمران خان صاحب کےسارےاقدامات اور ان کے ثبوت تاحال پکوڑوں کے ڈسپوزل ہی ثابت ہوئے ہیں، ان کا چہرہ لٹکا ہوا ہے۔ باقی رہے اپنے برادر امیر جماعت اسلامی سراج الحق تو ان کا کیا بگڑنا تھا، ان کا حساب تو جمعہ جنج نال والا تھا اور اپنے شیخ رشید جو خود کو جواں سال سمجھتے ہوئے دوسروں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ان کی ٹانگیں قبر میں ہیں۔ ان کامزید کچھ بگڑ ہی نہیں سکتا تھا۔ ہمارے درمیان کچھ لوگ بظاہرزندہ نظرآتے ہیں مگر دراصل وہ مرچکے ہوتے ہیں، صرف ان کی تدفین باقی ہوتی ہے اور یہ کام جلد سے جلد کرنے والا ہوتا ہے۔ ورنہ وہ تعفن پھیلاتے ہیں اور ماحول کی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ بہرحال سپریم کورٹ کے فیصلے پر سنجیدہ پروگرام بھی ہوں گے مگر تاہم سوشل میڈیا پر جگت بازی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ شیخ رشید احمداور ان کی قماش کے دوسرےلوگوں کے الزامات کے حوالے سے ایک بہت مزے کی پوسٹ نظرآئی جس میں کہا گیا کہ دلہن کو نومہینے تک حاملہ قرار دیاگیا، الٹراسائونڈ ہوا تو پتہ چلا کہ وہ صرف گیس تھی۔ ایک پوسٹ میں عمران خان کو بلڈپریشر چیک کراتے دیکھا گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ توقعات کے عین مطابق تحریک انصاف کے پیروکاروں نے سپریم کورٹ کو گالیاں دینا شروع کردی ہیں۔ تحریک انصاف کے یہ جیالے صحیح کہتے ہیں کہ انصاف نہیں ہوا کیونکہ انصاف کا فیصلہ کرنا کسی کورٹ نہیں تحریک انصاف کا کام ہے۔ میں شروع میں عمران خان اور ان کے ہم نوائوں کے بارے میں اس خوش فہمی کا شکار ہو گیاتھا کہ وہ فیصلے کو مان رہے ہیں مگر کہاں جناب وہ تووزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔جس بنیادپر وہ یہ الزامات لگاتے تھے،کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی اس بنیاد پر استعفیٰ کی رٹ لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ جنرل ایوب خان کے زمانے میں سرکاری اخبارات کا پریس ٹرسٹ بنا تو روزنامہ امروز کے دو جرنلسٹوں کو کام سے روک دیا گیا وہ کمیونسٹ تھے مگر انہیں ہر ماہ تنخواہ باقاعدگی سے ملتی تھی۔ ایک دن ان کےدفتر کے ساتھیوں نے دیکھا کہ وہ اوور ٹائم کی رقم بھی وصول کر رہے تھے کسی نے پوچھا کہ تم یہ اوورٹائم کس کام کا لے رہے ہو؟ اس نے جواب دیا جس کام کی تنخواہ لے رہے ہیں۔ تو مجھے یوں لگ رہا ہے کہ غیرقانونی او رغیرآئینی مطالبات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ جس طرح ایک مدت سے جاری ہے اور یوں پوری قوم کو پھر ایک طویل عرصے تک کے لئے ٹینشن میں رکھا جائے گا۔ اس کے باوجود الٹراسائونڈ کی رپورٹ پر وہی آنا ہے جو ابھی آیا ہے کیونکہ شریف خاندان کا بدترین احتساب جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوچکا ہے اور تمام تر کوشش کے باوجودان کے ہاتھ کچھ نہ آیا تھا اور اب بھی مخالفوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا کہ بقول میرے ایک دوست کے عمران خان دھرنوں کے معاملے کی طرح ایک مرتبہ پھراستعمال ہو گئے ہیں۔ دھرنے کے بعد عمران خان کے ہاتھ وہی کچھ آیا جو نواز شریف دھرنوں سے پہلے آفر کرچکے تھے۔ اس بار بھی عمران خان کے ہاتھ وہی ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی آئی جس کی پیشکش چوہدری نثارعلی خان نے پاناما لیکس کے فوراً بعد ہی کردی تھی۔ باقی رہ گیا عدالت ِ عظمیٰ کے دو فاضل ججوں کا وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی سفارش کرنا تو باقی کو تو چھوڑیں اعتزاز احسن بھی یہ کہتے رہے ہیںکہ اس کیس میں وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پوری وکلا برادری جس میں مختلف جماعتوں سے ہمدردی رکھنےوالےوکلا بھی شامل ہیں، یہ بات کہہ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کی پوری تاریخ میںآئین کی رو سے اس طرح کے فیصلے کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی تاہم ایک فاضل بیرسٹر کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے جج نظیر سے ہٹ کر بھی کوئی فیصلہ چاہیں تو وہ کرسکتے ہیں اگرچہ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی ۔ اس کے باوجود اگرایسے ہی ہے جیسے ایک انتہائی قابل احترام وکیل نے کہا ہے اور انتہائی قابل احترام دو ججوں نےکرکے دکھایا، تو پھر یہ ان کا صوابدیدی حق تھا جو انہوں نے استعمال کیا۔ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز افراد کو بھی صوابدیدی حق دیا گیا ہے مگر سب لوگ یہ استعمال نہیں کرتے ہیں اور یہ حق استعمال نہ کرنا بھی ان کا صوابدیدی حق ہی ہوتا ہے۔

.
تازہ ترین