• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بطور پاکستانی ہمارے دو شوق ہیں، پہلا، اپنی پاکبازی کا ڈھنڈورا پیٹنا، دوسرا، امریکہ اور برطانیہ کی مثالیں دینا۔ پاکباز ہونا کوئی آسان کام نہیں مگر ہماری قوم میں چونکہ ’’بے پناہ ٹیلنٹ‘‘ ہے اس لئے اِس مشکل کام کا بھی ہم نے ایک شارٹ کٹ ڈھونڈ رکھا ہے اور وہ یہ کہ خود پاکباز ہونے کی بجائے لوگوں کو پاکبازی کی تلقین کی جائے، ہم سب چونکہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اس لیے ہمیں چاند ماری کے لئے ایک تختہ مشق چاہیے تاکہ ہم دل کھول کر اپنی بھڑاس نکال سکیں اور اپنی تمام کرتوتوں کا ذمہ دار کسی دوسرے کو قرار دے کر خود بری الذمہ ہو جائیں۔ مرچوں میں برادے کی ملاوٹ ہم خود کرتے ہیں اور گالیاں انتظامیہ کو دیتے ہیں، ایک دھیلے کا ٹیکس ہم ادا نہیں کرتے اور اسپتالوں میں سہولتیں ناروے جیسی مانگتے ہیں، ٹریفک وارڈن چالان کے لئے گاڑی روک لے تو اس کو تھپڑ رسید کرتے ہیں اور رونا یہ روتے ہیں کہ اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں، اپنے ملک کے ہوائی اڈوں پر قطار بنانے کی زحمت نہیں کرتے اور دہائی دبئی کی دیتے ہیں جہاں اترتے ہی خود بخود تمیز سیکھ لیتے ہیں، اس خستہ حال نظام کی چولیں ہلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور طعنے جمہوریت کو دیتے ہیں ....کس کس بات کا انسان ماتم کرے، منافقت میں لتھڑے ہوئے ہم لوگ ہیں، سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے اور اداکاری یوں کرتے ہیں گویا ہم میں سے کسی نے ساری عمر سوئی کے ناکے کے برابر بھی بے ضابطگی نہیں کی اور سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک یوں پاکباز ہیں گویا ماں کے پیٹ سے ابھی ابھی برآمد ہوئے ہوں، پتھر ہاتھ میں لئے ہر اس عورت کو سنگسار کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں جس پر زنا کا الزام ہے، البتہ ہم سے کوئی نہ پوچھے کہ ہم کتنے پاک دامن ہیں! لیکن کیا کیجئے، یہی چلن آج کل ہِٹ ہے، اس میں ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔ اور اگر غلطی سے کوئی حقیقت میں ایماندار نکل آئے تو اس کا حال اس افسر جیسا ہوتا ہے جس کے بارے میں یوسفی صاحب فرماتے ہیں:’’ہمارے ہاں ایماندار افسر کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ جب تک بے جا سختی، خوردہ گیری اور اڑیل اور سڑیل پن سے سب کو اپنی ایمانداری سے عاجز نہ کر دے، وہ اپنی ملازمت کو پکا اور خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔‘‘
اس بات پر مٹی ڈالتے ہوئے آگے چلتے ہیں کیونکہ ہمارا دوسرا شوق بھی خاصا دلچسپ ہے۔ ہمیں امریکہ، برطانیہ کی مثالیں دینا بہت پسند ہے، روزمرہ کی گفتگو میں ہمارے تکیہ کلام کچھ اس قسم کے بن چکے ہیں ’’امریکہ میں تو ایسا نہیں ہوتا، وہاں کا صدر تو واشنگ پاوڈر کا خرچ بھی اپنی جیب سے بھرتا ہے....برطانیہ میں اگر یہ ہوا ہوتا تو وزیر اعظم استعفیٰ دے چکا ہوتا....!‘‘ ایک لمحے کے لئے بھول جائیں کہ ان ممالک میں جمہوریت کیسے پروان چڑھی یا وہاں کے اینکر پرسن روزانہ شام غریباں برپا کرکے ڈکٹیٹر شپ کی راہ ہموار کرتے ہیں یا نہیں ....یہ سب چھوڑ کر ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ امریکی صدر، جس کی درویشی کی ہم دن رات مثالیں دے کر ہلکان ہوئے جاتے ہیں، سرکاری طور پر کیسے رہتا ہے! ایئر فورس ون نامی جہاز امریکی صدر کے زیر استعمال رہتا ہے جس کا کم ازکم خرچ دو لاکھ ڈالر فی گھنٹہ ہے، میرین ون ہیلی کاپٹر بھی وہ استعمال کرتا ہے جس میں اینٹی میزائل سسٹم نصب ہوتا ہے، امریکی صدر کے فلیٹ میں بارہ عدد لیموزین گاڑیاں ہوتی ہیں جو بلٹ پروف اور بم پروف ہیں اور ایک گاڑی کی قیمت تقریباً پندرہ لاکھ ڈالر ہے (12x1,5000,000x106=1,908,000,000) گویا دو ارب روپے، فقط۔جب بھی صدر نے چھٹیاں گزارنے کیمپ ڈیوڈ جیسے تفریح مقام جانا ہو تووہاں گزری صدر کی ہر رات امریکی ٹیکس گزار کو سات لاکھ ڈالر میں پڑتی ہے (چاہے وہ فقط سو کے گزار دے) امریکی صدر کی حفاظت کے لئے خاص سیکریٹ سروس مامور کی جاتی ہے جس کا سالانہ بجٹ سوا دو ارب ڈالر ہے (ضرب تقسیم خود ہی دے ڈالیں)،اس کے علاوہ سال کے تقریباً دو لاکھ ڈالر بطور پنشن صدر کو ملتے ہیں، وائٹ ہاؤس کے سو سے زائد ملازمین، اس کا بجٹ اور صدر کے لئے لاکھ ڈالر سالانہ پر حاصل کیا گیا خاص باورچی اس کے علاوہ ہے۔ انگریزی کالم نگاروں کے لئے یہ ایک اچھا موضوع ہے، ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی اگر وہ ہمارے سالانہ بجٹ کی کاپیاں ٹی وی پر لہرا کر یہ بتائیں کہ امریکی صدر کی طرح ہمارے وزیر اعظم ہاؤس کو بھی درویشانہ انداز میں کیسے چلایا جا سکتا ہے تو قوم پر احسان عظیم ہوگا۔
برطانیہ بھی ہمیں بہت عزیز ہے، گفتگو میں جب تک ڈیوڈ کیمرون کے پاناما اسکینڈل کا حوالہ نہ دیں، ہمیں کھانا ہضم نہیں ہوتا، سو آج کچھ لوگوں کا ہاضمہ درست کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ریکارڈ بھی درست کر لیا جائے۔ 4اپریل 2016کو پاناما اسکینڈل کی خبر کے بعد دس ڈاؤننگ اسٹریٹ کا پہلا تبصرہ تھا کہ ’’یہ ایک ذاتی معاملہ ہے!‘‘ جب شور زیادہ مچا تو اسی شام دوسرا بیان آیا کہ ’’وزیر اعظم کی ملکیت میں کوئی شیئرز نہیں۔‘‘ اگلے روز خود ڈیوڈ کیمرون نے بیان داغا ’’میرے پاس کوئی شیئرز نہیں، کوئی سمندر پار ٹرسٹ نہیں، کوئی فنڈ نہیں، ایسا کچھ نہیں۔ سو میرا خیال ہے کہ یہ بہت واضح تفصیل ہے۔‘‘ 6اپریل کو کیمرون کے ترجمان نے کہا ’’ایسا کوئی آف شور فنڈ یا ٹرسٹ نہیں جس سے وزیر اعظم کیمرون یا اُن کے بچے مستقبل میں کوئی فائدہ اٹھا سکیں۔‘‘ 7اپریل کو وزیر اعظم کیمرون نے اعتراف کیا کہ اُن کے والد کا براہ راست تعلق برطانیہ کے ٹیکس بچاؤ فنڈ سے تھا، موصوف کے الفاظ میں ’’ماضی میں میرے پاس شیئرز اور اسٹاک تھے، اور یہ قدرتی امر تھا کیونکہ میرے والد ایک اسٹاک بروکر تھے، میں نے وہ تمام 2010میں فروخت کر دیئے کیونکہ میں وزیراعظم بننے جا رہا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی یہ کہے کہ میرا دوسرا کوئی ایجنڈا ہے یا کوئی ذاتی مفادات ہیں، میرا اور سمانتھا (بیوی) کا مشترکہ کھاتا تھا جس میں بلیمور انویسٹمنٹ ٹرسٹ میں ہمارے پانچ ہزار یونٹ تھے جو ہم نے جنوری 2010میں فروخت کر دیئے، جن کی مالیت تقریباً تیس ہزار پاؤنڈ تھی۔‘‘ سو بات ’’ذاتی معاملے سے شروع ہوئی اور اعتراف تک جا پہنچی مگر ابھی ختم نہیں ہوئی۔ پنچ لائن چونکہ خاصی معنی خیز ہے اس لئے بہتر ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کے الفاظ ہو بہو نقل کر دیئے جائیں تاکہ جمہوریت کی ماں برطانیہ کے حوالے دینے والوں کو افاقہ ہو سکے:
"I obviously can't point to the source of every bit of money and dad's not around for me to ask the questions now."
کسی پڑھے لکھے سے اس کا ترجمہ کروا لیں تو زیادہ بہتر ہوگا، مطلب اس کا یہ ہے کہ والد صاحب فوت ہو چکے ہیں، میں پائی پائی کا حساب نہیں دے سکتا۔ یہ احوال اس ملک کا ہے جہاں کوئی بارہ اکتوبر ہوا اور نہ کوئی جلا وطن ہوا، جمہوریت اس ملک سے شروع ہوتی ہے اور یہیں ختم ہوتی ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے استعفیٰ بریگزٹ ہارنے پر دیا، پاناما پر نہیں۔ امریکہ، برطانیہ کی مثالیں دینے والو....اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی !



.
تازہ ترین