• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رات ڈھائی بجے بجنے والے تیز الارم نے مجھے گہری نیند سے جگا دیا صرف تین گھنٹے قبل پورے دن کی محنت کے بعدمیں نیند کی آغوش میں گیا تھا۔یہ زور دار الارم میں نے خود ہی لگایا تھا تاکہ ملازمت پر وقت پر پہنچ سکوں لیکن شدید تھکن اور گہری نیند کے سبب ابھی تک میرے حواس بحال نہیں ہوئے میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ میں اس وقت کہاں ہوں، کیا میں اپنے آبائی شہر فیصل آباد میں ہوں یا جاپان کے معروف صنعتی شہر ناگویا میں،چند لمحوں میں میرے حواس بحال ہوئے تومجھے احساس ہواکہ میں اس وقت جاپان میں موجود ہوں اور آدھے گھنٹے بعد مجھے اپنی ملازمت پر جانا ہے،لیکن مجھ میں ابھی بستر سے نکلنے کی ہمت پیدا نہیں ہورہی تھی میں ذہنی طور پر اس وقت خود کو اپنے آبائی شہر فیصل آباد میں والدین کے ساتھ دیکھ رہا تھا ہر روزاسی وقت دوستوں کے ساتھ وقت گزار کر گھر آتا تھا اور روز ہی والد اور والدہ میرے انتظار میں جاگ رہے ہوتے والد صاحب تو دیر سے آنے پر ڈانٹنے اور پٹائی کرنے کے لئے انتظار کرتے تو والدہ مجھے بچانے کے لئے سونے سے پرہیز کرتیں،پھر جیسے ہی میں گھر میں خاموشی سے داخل ہوتا تو والد سے پہلے والدہ ہی جھوٹ موٹ کے غصے کا اظہار کر تے ہوئے کہتیں کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ والد صاحب دن بھر محنت کریں اور تم کھیل کود اور دوستوں میں اپنا وقت برباد کرو، تمہارے والد صاحب صبح کریانے کی دکان پر جائیں پھر کپڑا بنانے کا کارخانہ بھی سنبھالیں اور تمہیں دوستوں کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے چلو والد صاحب کی ٹانگیں دبائو جس کے بعد والد صاحب بھی والدہ کا بناوٹی غصہ دیکھ کر مسکرا کر رہ جاتے اور میں خو ش دلی سے والد صاحب کے سوجے ہوئے پیر دبانے بیٹھ جاتا۔میں باوجود لاابالی زندگی گزارنے کے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا میں غریبی کی اس دیوار کو پھلانگنا چاہتا تھا جس کے سبب میرے والدین کو خاندان اور معاشرے میں وہ مقام نہیں مل سکا جو خاندان میں آسودہ حال رشتہ داروں کا تھا۔میرے خاندان اور معاشرے کے حوالے سے سخت خیالات پر والدہ ہمیشہ ہی نصیحت کرتیں کہ بیٹا مزاج میں نرمی پیدا کرو، کیونکہ جو درخت جھکتا ہے اسی میں پھل بھی زیادہ لگتے ہیں اکڑنے والا درخت جلدی ٹوٹتا ہے اور اکڑنے والا انسان بھی اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، جبکہ میرے والد دین سے قربت کی نصیحت ہمیشہ ہی کیا کرتے، لیکن میرے لئے کامیابی صرف دولت کے حصول میں ہی تھی جوکہ پاکستان میں رہتے ہوئے ممکن نہیں تھا سو میں نے باہر نکلنے کے لئے تگ ودو شروع کی اور آج میں جاپان میں موجود تھا اور پھر وہی ڈھائی اور تین بجے کا وقت میرے سامنے تھا جس وقت دن بھر کی سیر و تفریح کے بعد میں سویا کرتا آج صرف چند برس بعد اسی وقت صرف چند گھنٹے کی نیند کے بعد اٹھنے پر مجبور تھا،میری لوگوں کے گھروں میں اخبار ڈالنے کی ملازمت لگی تھی جو تین بجے شروع ہوتی اور صبح چھ بجے تک جاری رہتی جس کے بعد میں گھر واپس آتا نہا دھوکر ناشتہ کرتا اور پھر ایک کارخانے میں صبح آٹھ بجے سے رات دس بجے تک ملازمت کرتا، جبکہ اتوار والے روز بھی ایک پیٹرول پمپ پر گاڑیاں صاف کرنے کی ملازمت حاصل کرتا،میں جاپان آکر پیسہ بنانے والی مشین بن چکا تھا،جاپان میں ہونیو الی آمدنی کے بعد اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے باوجود تھکن کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا اسی مشینی زندگی کے دوران ہی میری ملاقات توموکو ناگاشیما سے ہوگئی جس سے ملنے کے بعد میرے زندگی میں بڑی تبدیلی آئی، اب میں نے صرف دن والی ملازمت جاری رکھی اور رات کو اخبار ڈالنے اور اتوار کو گاڑیاں صاف کرنے کا کام چھوڑ دیا اور ملازمت کے بعد زیادہ تر وقت توموکو ناگاشیما کے ساتھ ہی گزارتا، وہ ہر روز میری فیکٹری کے باہر میرے انتظار میں ہوتی اور ہم کئی گھنٹے ساتھ گزارتے، اس نے میرے لئے دین اسلام کو بھی سیکھا،پاکستانی کھانے بنانے بھی سیکھے، غرض ہم دونوں ہی زندگی ساتھ گزارنے کے خواہاں تھے لیکن اس کی ایک ہی شرط تھی کہ شادی اس کے والدین کی اجازت سے ہوگی پھر ایک روز اس کے والدنے مجھ سے ملاقات کی اور کافی طویل گفتگو کے بعد اگلے روز جواب دینے کا کہا اگلے روزانھو ںنے اپنی بیٹی کے لئے میرے رشتے سے انکار کردیا اور توموکو نے ایک فرمانبردار بیٹی کی طرح اپنے والد کے فیصلے کا احترام کیا اور یکدم مجھ سے ملنے سےانکار کردیا، میں ذہنی طور پر بالکل مائوف ہوچکا تھا میری درخواست پر وہ مجھ سے ملنے آئی اس نے مسترد کیے جانے کی وجہ میری غربت اور میرے غیریقینی مستقبل کو بتایا جبکہ مذہب کی تبدیلی بھی ان کے لئے ناقابل قبول تھی لیکن میں اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور تھا اور توموکو کو مسلسل والد کی مرضی کے بغیر ہی شادی کے لئے اصرارکررہا تھا جس کے بعد اس کے نازک ہاتھوں سے میرے چہرے پر پڑنے والا زناٹے دار تھپڑ شاید مجھے کوئی جسمانی تکلیف تو نہ پہنچا سکا تھا لیکن جذباتی طور پر جو تکلیف اس تھپڑ نے مجھے پہنچائی تھی شاید وہ پوری زندگی مجھے یاد رہنے والی تھی اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے اور میری آنکھوں میں بھی آنسو تھے وہ اس سے میری آخری ملاقات تھی، ملاقات کے بعد میں آخری ملازمت بھی چھوڑ بیٹھا کئی مہینے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں کچھ دوستوں نے سہارا دیا کچھ والدین نے ہمت دلائی ایک بار پھر غربت سے نفرت ہوگئی تھی۔ اب میں کاروبار سے منسلک ہوگیا دولت سے نفرت ہوچکی تھی لیکن اب شاید قدرت مجھ پر مہربان تھی جس کام میں ہاتھ ڈالا اس میں کامیابی ملی، برسوں تک دولت کے پیچھے بھاگا تو دولت دو ر بھاگی اور جب دولت سے نفرت ہوئی تو دولت پیچھے پیچھے بھاگی، وقت گزرتا رہا لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں کب ہوگئے پتہ ہی نہ چلا، توموکو چلی گئی تو اینا مورا زندگی میں آگئی ایک بار پھر محبت ہوئی اس دفعہ شادی بھی ہوئی ماشاء اللہ دوبچیاں بھی ہیں۔ والدین ساتھ چھوڑ چکے ہیں، لیکن ان کی محبت اور ان نصیحتیں ہمیشہ یاد رہتی ہیں میرے سامنے بیٹھے معروف سماجی شخصیت اور پاک جاپان بزنس کونسل کے صدر رانا عابد حسین کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں وہ اپنے ماضی سے اپنے حال تک کا سفر میرے قلم کے ذریعے دنیا کے ان لوگوں تک پہنچانا چاہ رہے تھے جنھوں نے ابھی زندگی کا سفر شروع کرنا ہے۔



.
تازہ ترین