• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کے مسلمان مشکل میں پڑگئے ہیں۔ پہلے تو دوسروں کی باتوں پر چپ رہا کرتے تھے، اب اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ بحث کرنے لگے ہیں اور اپنی بات دلیل سے منوانے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ مگر سر پھروں سے بحث مباحثہ کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے، ہم سب جانتے ہیں اور شاید کچھ زیادہ ہی جانتے ہیں۔ مجھے بھارت کے مسلمانوں کی اس دشواری کا احساس کسی جریدے میں ایک بلاگ پڑھ کر ہوا۔ یہ بلاگ شولا پور، آندھر پردیش کی اسما انجم خاں نے لکھا ہے۔ اسما انگریزی کی سینئر استاد ہیں، پڑھتی ہیں، مطالعہ کرتی ہیں اور حالات پر نگاہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے بلاگ میں مسلمانوں کو کچھ مشورے دئیے ہیں۔ وہ مشورے میں یہاں نقل کروں گا لیکن یہیں بتاتا چلوں کہ ان مشوروں میں وہ شدید دشواریاں پوشیدہ ہیں جو بھارت کے مسلمانوں کو درپیش ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ہم عجیب وقت میں جی رہے ہیں جب ہمیں آئے دن ایک نئے چیلنج کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اس سوشل میڈیا نے اور زیادہ پریشانیاں پیدا کردی ہیں۔ یہ ایسا نظام رائج ہے کہ جو کوئی بھی کمپیوٹر کے آگے بیٹھا ہے، جو بھی اس کے جی میں آرہا ہے، لکھ رہا ہے۔اس پر کبھی کبھی تو ایسے ناقابل یقین تبصرے پڑھنے میں آتے ہیںکہ سرچکرا جاتا ہے۔ آج کے سلگتے موضوعات پر رائے زنی کرنے والے کچھ لوگوں نے اس معاملے میں شہرت حاصل کرلی ہے۔ اس مباحثے میں خاص طور پر اقلیتوں کے جذبات کو بھڑکانے کے اسباب بے شمار ہیں۔ مثال کے طور پر حجاب کے معاملے پر زبردست لے دے ہورہی ہے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ تین طلاقوں، گائے کے گوشت اور اذان کے سوال پرجو بحث چل نکلی ہے اس سے تو خوف آنے لگا ہے۔
اسما لکھتی ہیں کہ میری رائے یہ ہے کہ کسی دلیل کا جواب دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیں، ٹھہریں، ذرا دم لیں ، پھر اپنی بات کہیں۔ اپنے وطن عزیز کی اس تمازت اور طوفان میں ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے۔ ہماری دلیل پختہ ہواور ٹھوس معلومات کی بنیاد پر ہو،مستند ہو اور جرات مندانہ ہو۔لیکن ہم جو ردّ عمل کے طور پرمشتعل ہیں او رغصّے میں بھرے بیٹھے ہیں اس سے تو ڈر لگتا ہے کہ ہم کہیں ہار نہ جائیں۔مشکل یہ ہے کہ ہم جتنا زیادہ ان سے الجھیں گے، وہ اتنی ہی کامیابی سے ایسا ماحول بنا لیں گے جس میں وہ اپنے عزائم آسانی سے پورے کرلیں گے۔ اس کا علا ج یہ ہے کہ ہم ان کے جال میں نہ آئیں۔ہم ایسے لغو مباحثوںمیں حصہ نہ لیں جن سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ پورا وقت انٹرنیٹ کے آگے نہ بیٹھیں، طویل خبر نامے نہ سنیں۔ توقف سے کام لیں۔ کچھ پڑھیں، پڑوسی سے ملنے چلے جائیں، یاہاتھ پر ہاتھ رکھ لیں، سب کریں، اس سوشل میڈیاکی بک بک جھک جھک سے دور رہیں۔ آپ نے فاصلہ نہ رکھا تو آپ دوسروں کے ہاتھوں میں کھیل جائیں گے، آپ کو محسوس بھی نہ ہوگا کہ آپ اپنے ہی موقف کو زک پہنچا رہے ہیں۔
اس کے بعد اسماخان نے ان لوگوں کو مشورے دئیے ہیں جو مباحثوں میں حصہ لینے پر بضد ہیں۔ کہتی ہیں کہ تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اگر آپ مشتعل ہوئے تو سمجھئے آپ اپنی شکست کی راہ پر جا پہنچے۔ پر سکون رہیں اور حالات سے پوری طرح باخبر رہیں۔ اگر کوئی کہے کہ مغل اس ملک کو لوٹتے رہے تو ان سے پوچھیں مغل وہ لوٹی ہوئی دولت کہاں لے گئے؟یا کیا انہوں نے سب کچھ لوٹ کر سمندر پار کہیں حفاظت سے رکھوا دیا؟سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے سب کچھ اسی سرزمین میں کھپادیا۔ اگر آپ دبنگ ہونا ہی چاہتے ہیں تو پہلے پڑھ لکھ کر اچھی طرح باخبر ہوں۔ سوشل میڈیا اگرچہ بعض معاملوں میں بڑے کام کی چیز ہے لیکن یہ کبھی کبھی ہمیں جھوٹی تسلی بھی دیتا ہے کہ ہم نے اپنی بات کہہ کر گویا کوئی بڑا فرض اداکردیا۔ اس طرح ہو سکتا ہے ہم اپنے قصور کا بوجھ ا پنے کاندھوں پر سے اتار پھینکیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمیں اس حقیقی دنیا میں خود کو بھی ایک حقیقت بنانا ہوگا۔ اس کے بعد ہی ہم معاملوں کو سلجھا پائیں گے۔
اس کے بعد اسمانے دو ایک دلچسپ مثالیں دی ہیں۔ جیسے گلوکار سونو نگم نے اذان پر بے تکا تبصرہ کیا ہے، اس پر بعض لوگوں نے کہا چلو چل کر سونو نگم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔ کسی نے کہا کہ اسے سامنے بٹھا کر اذان کے حسن کی باریکیاں سمجھائیں۔ اب آپ اتنے بھولے بھی نہ بنیں۔وہ کسی کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اور آج کی فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے کر اپنا ہی نقصان کر رہا ہے۔یہ قصہ اذان یا حجاب یا تین طلاقوں کا نہیں، اس کا مقصد بے تکی باتیں بنا کر آبادی کے ایک حصے کو ڈرا دھمکا کر رکھنا ہے اور اس کے نتیجے میں اس ملے جلے معاشرے کے حسن کو خاک میں ملا نا ہے۔
آگے چل کر اسما لکھتی ہیں کہ جو رہی سہی کسر ہے وہ ٹیلی وژن پوری کر رہا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں جلتی پر تیل چھڑک رہا ہے۔ وہ اپنے ٹاک شوز میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے مولوی حضرات کو شامل کرتا ہے جو دینی معاملات کو تو خوب سمجھتے ہیں لیکن وہ نہ تو آج کے حالات پر بات کرنے کے اہل ہیں اور نہ چیخم دھاڑ کرنے والے اینکر اور دوسرے شرکا کو خاموش کر سکتے ہیں۔ آج کے میڈیا سے نمٹنا ایک الگ ہی ہنر ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کیل کانٹے سے پوری طرح لیس ہوں اور ہر سوال کا ڈٹ کر جرا ت مندی اور پورے یقین او راعتماد سے وہ جواب دیں جو عام زبان میں دنداں شکن کہلاتا ہے۔ ہمارے جوانوں میں قابل اور زیرک لوگوں کی کمی نہیں۔ان کو اس کام کے لئے تیار کریں اور پھر میدان میں اتاریں۔
آخر میں اسما انجم خان نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی خندہ پیشانی ہمیشہ ہی مشہور رہی ہے۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ملک کا امن وامان تباہ ہو۔

.
تازہ ترین