• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس کے اختتام پر اتوار کو جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیے میں عالمی اور علاقائی سطح پر دہشت گردی و انتہاپسندی کی روک تھام اور امن و استحکام اور ترقی کیلئے جس پارٹنر شپ کی صورت گری کا عندیہ دیا گیا اسکے نتیجے میں اگر عالمی سپر پاور اور عرب ممالک سمیت اسلامی دنیا کے درمیان تعاون و مفاہمت میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے کئی عشروں سے دہشت گردی کے خطرات سے دوچار کرہ ارض کو زیادہ محفوظ بنانے اور آنے والی نسلوں کی ترقی و خوشحالی کے امکانات بڑھانے میں یقیناً مدد ملے گی۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جس نوع کی تقریریں کی، ان سے مسلم دنیا ہی میں نہیں بلکہ امریکہ سمیت مغربی ملکوں میں بھی مسلمانوں کے بارے میں انکے خیالات کے حوالے سے ایسا تاثر ابھرا جسے مثبت نہیں کہا جاسکتا۔ اب انہوں نے امریکی صدر کے حیثیت سے اپنے پہلے کئی ملکی دورے کا آغاز سعودی عرب سے کیا ہے جو حرمین شریفین کے باعث دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے انتہائی مقدس مقام کا درجہ رکھتا ہے تو مبصرین کے خیال میں انہوں نے مسلم ممالک خصوصاً عرب دنیا میں ایک قابل قبول عوامی تاثر بنانے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ 50 سے زائد سربراہان ریاست و حکومت سے خطاب میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ کوئی لیکچر نہیں دینا چاہتے مگر ان کے پیغام کی مختلف سطحوں پر جو بھی تعبیریں ہوں، یہ واضح ہے کہ واشنگٹن نے قبل ازیں تہذیبوں کے تصادم کا جو نظریہ اپنایا تھا اس کیلئے اب نیکی اور بدی کے درمیان جنگ کی اصطلاح استعمال ہوگی۔ مسلم سربراہان مملکت و حکومت سے خطاب کے دوران صدر ٹرمپ کا کہنا تھاکہ وہ امریکہ سے محبت، دوستی اور امید کا پیغام لیکر آئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ مشترکہ اقدار اور مفادات کی بنیاد پر پارٹنر شپ کی پیشکش کرتے ہیں۔ یہ سب یقیناً مثبت باتیں ہیں اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مسلم دنیا سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہوئی ہے۔ جبکہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف امریکہ کی زیر قیادت عالمی مہم میں اپنے 70ہزار کے لگ بھگ شہریوں، چھ ہزار فوجی افسران اور جوانوں کی شہادتوں، املاک اور انفرااسٹرکچر کی تباہی اور جنگی اخراجات کی صورت میں جو قربانیاں دیں ان کی مثال دنیا کا کوئی ملک نہیں دےسکتا۔ امریکی صدر کی تقریر میں پاکستان کی ان قربانیوں کا ذکر ہوتا تو پاکستانی عوام یہ محسوس کرتے کہ وہائٹ ہائوس اپنے پارٹنرز کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ اسکے برعکس دہشت گردی کے شکار ملک کی حیثیت سے بھارت کے ذکر سے ان سب حلقوں کو یقیناً حیرت ہوئی ہوگی جو بھارتی فوجیوں اور ہندو تنظیموں کے ہاتھوں صرف مقبوضہ کشمیر میں 1989ءسے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی شہادتوں اور 1947ءمیں جموں میں 3لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں جانتے ہیں۔ عالمی امن کے مفاد کا تقاضا ہے کہ دہشت گرد قوتوں کی درست نشاندہی کی جائے۔دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مسلم ممالک کی مضبوط حمایت حاصل کرنے کیلئے ان شکوک کو بھی دور کیا جانا چاہئے جو داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کے حوالے سے دنیا بھر میں موجود ہیں۔ مسلم آبادی پر مشتمل دنیا کے ایک بڑے حصے کے ساتھ امریکی پارٹنر شپ کو مزید مستحکم کرنے کیلئے صدر ٹرمپ اگر اہم مسلم ممالک کو ڈائیلاگ کی میز پر لاکر کئی عشرے قبل کے امریکہ کی طرح اپنا مشترکہ دوست بنانے میں کامیاب ہوجائیں تو منقسم مسلم دنیا کی بجائے متحد مسلم دنیا امریکہ اور عالمی امن کے استحکام کیلئے زیادہ موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہوگی۔ مگر یہ سوال قابل توجہ ہے کہ کیا ریاض کانفرنس میں جن مسلم ممالک کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے کیا ان کے بغیر یہ اتحاد کارگر ہو سکتا ہے؟امریکہ ماضی میں ایران سمیت کئی ممالک کیساتھ مکالمات کا آغاز کرکے انتہائی مشکل مراحل سر کرچکا ہے اور اب بھی ایسا کرسکتا ہے۔

.
تازہ ترین